اسلام آباد۔1مارچ (اے پی پی):وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے پٹیشنز چار تین سے مسترد ہو گئی ہیں، اس فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت نہیں، ہم انتخابات سے نہیں بھاگ رہے، زمینی حقائق دیکھتے ہوئے تین جج صاحبان نے بھی کہا کہ گورنر اور الیکشن کمیشن یا صدر اور الیکشن کمیشن مشاورت سے تاریخ دیں اور کوشش کریں کہ 90 روز کے اندر اندرا لیکشن ہوں۔ بدھ کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فیصلہ جب بہت واضح ہو اور اس میں ابہام نہ ہو تو فیصلے پر میرے خیال میں نظرثانی والی کوئی بات نہیں ہے،
یہ کسی کی ہار یا جیت یا کسی کی اہلیت یا نا اہلیت کا کیس نہیں تھا، یہ ایک آئینی نکتہ آیا ہے اور اس آئینی نکتہ کے قابل سماعت ہونے پر پہلے بحث چھڑی اور اس بحث کے نتیجہ میں دو باتیں سامنے آئیں کہ جن دو معزز جج صاحبان نے اپنا فیصلہ دیدیا تھا، اس معاملے پر کچھ سیاسی جماعتوں اور پاکستان بار کونسل کی طرف سے ان کے اوپر اعتراض اٹھایا گیا، ان دو جج صاحبان نے رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو بینچ سے الگ کر لیا، میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ فیصلہ صائب تھا کیونکہ کہتے ہیں کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے اور ان دو جج صاحبان کے حوالے سے اس کی کچھ بیک گرائونڈ بھی اورتاریخ بھی ہے،
اب سات جج صاحبان میں سے دو جج صاحبان 23 فروری کو اپنا فیصلہ دے کر دستخط کر چکے جس میں انہوں نے کہا کہ ہم ان پٹیشنز کوناقابل سماعت ہونے کی بنیاد پر خارج کرتے ہیں، یہ قابل سماعت نہیں ہیں، سوموٹو کا اختیار بھی اس کیس میں اس لئے استعمال نہیں ہونا چاہیے کہ معاملہ ہائی کورٹس میں زیر التواء ہے اور آئین کی شق 184(3) کے تحت عدالت عظمیٰ کے اختیارات ہیں، ان کے بارے میں بھی انہوں نے رائے دیدی۔ آج جب پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ آیا، چیف جسٹس نے اس عرصے میں یہ مناسب سمجھا کہ وہ دو جج صاحبان کیونکہ اپنی فائنل رائے دے چکے ہیں، وہ مزید اس معاملے میں نہیں بیٹھنا چاہتے،
لہذا دیگر پانچ جج صاحبان پر مشتمل بینچ نے یہ کیس سنا، آج کے فیصلے میں تین جج صاحبان نے کہا کہ یہ کارروائی قابل سماعت ہے اور اس میں مزید انہوں نے ایک دو چیزیں لکھیں، جو اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہیں تھیں، اس میں آئین کے آرٹیکل 254 میں کہا گیا ہے کہ اگر آئین کے تحت کسی چیز کو ایک مقررہ وقت میں ہونا ہے اور وہ چیز اس مقررہ وقت میں نہیں ہو سکی، وہ اس وجہ سے غیر آئینی نہیں ہو گا کہ اس ٹائم فریم میں یعنی کہ انتخابات 90 دن میں نہیں ہوئے، آج زمینی حقائق دیکھتے ہوئے تین جج صاحبان نے بھی کہا کہ گورنر اور الیکشن کمیشن یا صدر اور الیکشن کمیشن مشاورت سے تاریخ دیں اور 90 روز کے اندر اندر الیکشن ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد 90 روز میں انتخابات 15 اپریل تک ہونے تھے لیکن اب مشاورت کے بعد الیکشن کمیشن کوشش کرے کہ جتنی جلدی ممکن ہو انتخابات ہو سکیں، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے، لوگوں کی بھی یہ رائے ہے، ہم بھی سمجھتے ہیں کہ اگر حالات سازگار ہوں، اگر انتخابات انسانی جانوں سے زیادہ قیمتی ہیں یا اگر ملکی حالات اجازت دے رہے ہیں، تو 30 سے 50 دن میں ہوں، اگر وہ 80 یا 90 دن میں ہونے ہیں تو یہ صوابدید بھی الیکشن کمیشن اور باقی سٹیک ہولڈرز کو آئین دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کا فیصلہ بہت واضح ہے جس میں دو معزز جج صاحبان نے کہا کہ ہم اتفاق کرتے ہیں کہ جو فیصلہ 23 فروری کو بینچ کے دیگر دو اراکین جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کئے ہیں کہ یہ پٹیشن قابل سماعت نہیں ہیں اور ساتھ انہوں نے کہا کہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ دو جج صاحبان کے فیصلہ جات ہیں، آج کے اس فائنل آرڈر کا حصہ ہیں، تو میرے خیال میں اس کے بعد نہ نظرثانی کی ضرورت ہے نہ مزید تشریح کی ضرورت ہے، میں نے اپنا ذاتی موقف دیا تھا، اب میں سمجھتا ہوں کہ اٹارنی جنرل کی رائے آنے کے بعد اور اس فیصلہ کو پڑھنے کے بعد ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ پٹیشنز چار تین سے مسترد ہو گئی ہیں، چار معزز جج صاحبان لکھتے ہیں کہ یہ قابل سماعت نہیں ہیں، اب یہ فیصلہ قانون اور آئین کے مطابق ہائی کورٹس میں زیر التواء میں ہو جانا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ایک بات تو طے شدہ ہے کہ یہ سات رکنی بینچ 9 رکنی بینچ میں سے دو جج صاحبان کے رضا کارانہ طور پر بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کے بعد رہ گیا، سات میں سے دو جج صاحبان نے 23 فروری کو کہا کہ یہ قابل سماعت نہیں ہے، یہ عدالت کے فیصلے کا حصہ ہے، تو مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ میری نظر میں اس پر نظرثانی کی ضرورت نہیں ہے تاہم اگر اس پر کسی کو اعتراض ہو تو وہ تشریح کرا سکتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ صدر مملکت نے ایک فیصلہ دے کر پھر اسے واپس لے لیا، اس پر صدر مملکت کے وکیل نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فیصلے کو اختیارات سے تجاوز قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ آیا صدر مملکت کو آئینی عہدہ رکھتے ہوئے ان ساری چیزوں سے مبرا ہو کے بالکل آئین کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں یا پارٹی ورکر کے طور پر کرنے چاہئیں؟ میرے لئے یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے پاکستان کے شہری کی حیثیت سے، قانون کے طالب علم کی حیثیت سے کہ صدر مملکت جنہیں آئین پاکستان ایک بہت بڑے منصب پر فائز کرتا ہے اور ان کا بڑا کردار ہے اس میں وہ اس طرح کی باتیں کریں جو کہ ان کے منصب کے اختیار میں نہیں آتیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹس میں درخواستیں خارج نہیں ہوئیں بلکہ دونوں ہائی کورٹس میں زیر التوا ہیں، اس کی تشریح ان دونوں ہائی کورٹس میں بھی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چار فاضل جج صاحبان ہی نے کہا ہے کہ ہائی کورٹس اس کا فیصلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں واضح کر دوں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کے وکلاء عدالت میں موجود تھے، یہ بات ہم آن ریکارڈ کہہ رہے ہیں کہ کوئی الیکشن سے نہیں بھاگ رہا، ہمارا صرف یہ کہنا ہے کہ انتخابات کی تاریخ اور انتخابات کے انعقاد اس ملک میں ہمیشہ آئین و قانون کے مطابق ہوتے رہے ہیں اور تاریخوں میں ردو بدل ہوتا رہا ہے، یہ پہلی دفعہ نہیں ہو گا کہ تاریخوں میں ردو بدل ہو، ہمارے وکیل نے ایک موقف پیش کیا ہے، یہ مقدمہ میں قوم کے سامنے رکھتا ہوں، قوم خود فیصلہ کرے، اتنی بات انہوں نے کہی کہ 35 ارب روپے کے خرچ سے ڈیجیٹل مردم شماری ہو رہی ہے جو کہ آج شروع ہو گئی ہے اور اس کی رپورٹ 30 اپریل کو دی جائے گی۔ پانچ سال سے یہ بحث چل رہی ہے کہ پچھلی مردم شماری درست نہیں تھی، اس پر تحفظات ہیں،
معاشرے کے بہت سے طبقات کو تحفظات ہیں، اس کے بعد پتہ چلے گا کہ ملک کے کس حصے کی آبادی کا تناسب کتنا ہے اور ہمارا آئین کہتا ہے کہ قومی اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم رقبے نہیں وہ آبادی پر ہو گی، ہمارے ملک کی وفاقی اکائیوں میں حلقہ بندیوں کے بعد اتار چڑھائو کی امید ہے، فنڈز کی تقسیم اور نمائندگی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے، مردم شماری سے پہلے اگر آج پنجاب میں آپ الیکشنز کرا رہے ہیں تو مردم شماری کے بعد اکتوبر میں قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے، یہ ایک بڑا تضاد آئے گا کہ جہاں پر آبادی کا تناسب کم یا زیادہ ہو گیا وہاں پر قومی اسمبلی کی نشستوں اور تناسب میں فرق پڑے گا،
صوبے کے ایک ایک حلقے کے اوپر ساری ساخت تبدیل ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہاٹھارویں ترمیم میں پاکستان بھر کی سیاسی جماعتیں جن میں تحریک انصاف بھی شامل تھی، شق 224 متعارف کرا کے ایک میکنزم فراہم کیا کہ آپ نگران حکومتوں کے ساتھ انتخابات کرائیں، آج دو صوبوں میں سیاسی حکومتیں قائم ہو جائیں گی، کوئی آئین اور قانون یہ اجازت نہیں دے گا نہ دیتا ہے کہ ان حکومتوں کو قومی اسمبلی کے انتخابات کے لئے معطل کر دیا جائے اور وہاں پر یکساں مواقع ملیں، ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں حکومت ہو، ہو سکتا ہے کہ کسی اور جماعت کی ہے، یہ تماشا چلتا رہے گا،
آٹھ مہینے ہم اس عمل میں رہیں گے اور پھر اس پر انگلیاں اٹھیں گی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کو اس حوالے سے فیصلہ کا اختیار دیا جائے، الیکشن کمیشن کو ان سارے عوامل کو مدنظر رکھ کر اس کا تعین کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی الیکشن سے نہیں بھاگ رہا، یہ ایک آئینی پوزیشن تھی، اس کو سامنے رکھنا ضروری تھا، آج کے اس فیصلے پر ہماری رائے یا تشریح یہ ہے کہ یہ چار تین کا فیصلہ آیا ہے اور اس معاملہ کا فیصلہ ہائی کورٹس میں ہو گا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت میں اس معاملے کی تیزی سے سماعت ہوئی جس کو ہم نے سراہا اور پورا تعاون بھی کیا،
کسی وکیل نے کوئی وقت نہیں مانگا کوئی تاریخ نہیں مانگی، جس طرح فاضل عدالت نے چاہا کارروائی چلی، تمام فریقین اور فاضل عدالت کو اتنا وقت دینے اور محنت کرنے پر سراہتے ہیں۔ انہوں نے کیس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ 9 رکنی بینچ میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے 23 فروری کو ہی اپنے تحریری نوٹ میں ان دونوں پٹیشنز کو ڈس مس کر دیا اور پھر 5 رکنی بینچ بنا،
انہوں نے اس فیصلے پر دستخط کئے لیکن جو غور کرنے والی بات ہے جب ہمارے پاس تحریری فیصلہ آیا اس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل نے اختلافی نوٹ لکھا، اس کیس کے ریکارڈ میں پانچ نہیں سات معزز جج صاحبان کے فیصلے موجود ہیں، اس میں سے دو معزز جج صاحبان نے 23 فروری کو ان پٹیشنز کو ڈس مس کیا، آج دو معزز جج صاحبان نے پٹیشن کو ڈس مس کیا تو چار معزز جج صاحبان نے پٹیشن کو ڈس مس کیا، تین معزز جج صاحبان نے پٹیشن کو قابل سماعت قرار دیا۔