مصنوعی ذہانت کو فروغ دے کر تجارت میں 16 فیصد اور جی ڈی پی میں26 فیصد اضافہ کیا جا سکتا ہے، مہر کاشف یونس

188
مہر کاشف یونس

اسلام آباد۔5مارچ (اے پی پی):وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر اور کرغزستان ٹریڈ ہائوس کے چیئرمین مہر کاشف یونس نے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا فروغ وقت کی ضرورت ہے، اس کو فروغ دے کر عالمی سطح پرتجارت میں 2030 تک 16 فیصد یا تقریباً 13 ٹریلین ڈالر تک اضافہ جبکہ جی ڈی پی میں26 فیصد اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

اتوار کو سٹریٹجک تھنک ٹینک گولڈ رنگ اکنامک فورم کے زیراہتمام ”معیشت میں مصنوعی ذہانت کا کردار“ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ہماری زندگیوں اور معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اور دنیا پر بہت سے مختلف طریقوں سے اثر انداز ہو رہی ہے۔

اس کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر میں مقابلہ بہت سخت ہے اور امریکہ اور ایشیا اس میں بڑے لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو پیداواری اور اقتصادی ترقی کے انجن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے کام کی رفتار اور کارکردگی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور بڑی مقدار میں ڈیٹا کا تجزیہ کر کے فیصلہ سازی کے عمل کو بہت بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت نئی مصنوعات و خدمات، مارکیٹوں اور صنعتوں کو بھی جنم دے سکتی ہے، اس طرح صارفین کی طلب میں اضافہ اور آمدنی کے نئے مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت سپر فرموں کی تخلیق کے ذریعے دولت اور علم پر اجارہ داری کا باعث بن سکتی ہے، جس کے وسیع تر معیشت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلیج بھی وسیع ہو سکتی ہے اور بعض مہارتوں کے حامل کارکنوں کی مانگ میں اضافہ کر کے دوسروں کو بے کار قرار دینے کا باعث بھی بن سکتی ہے جس کے لیبر مارکیٹ پر دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔

مہر کاشف یونس نے کہا کہ محتاط انداز سے تیار کی گئی پالیسی ہی منفی اثرات پر کنٹرول کے ذریعے مصنوعی ذہانت کی ترقی کو فروغ دینے کے قابل ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے پاس عالمی مسابقت میں اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے اور مصنوعی ذہانت کو اس راستے پر گامزن کرنے کی صلاحیت موجود ہے جس سے اس کی معیشت کو فائدہ پہنچ سکے۔

انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت وقت کی ضرورت ہے جسے ملک میں معاشی انقلاب لانے کے لیے تمام شعبوں میں فروغ دیا جانا چاہیے تاہم مطلوبہ نتائج اور اہداف کے حصول کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ہو گا۔