اسلام آباد۔9مارچ (اے پی پی):معاون وفاقی ٹیکس محتسب اور کرغزستان ٹریڈ ہاو س کے چیئرمین مہر کاشف یونس نے کہا ہے کہ پانی کے تحفظ کو لاحق خطرات عالمی اہداف برائے پائیدار ترقی کے حصول کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ جمعرات کو تھنک ٹینک گولڈ رِنگ اکنامک فورم کے زیراہتمام ”پانی کی قلت کے نقطہ نظر میں تبدیلی“ کے موضوع پر منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وقفے وقفے اور تسلسل کے ساتھ قدرتی آفات رونما ہو رہی ہیں اور موسمیاتی تبدیلیاں عالمی موسمی طرز میں خلل ڈال رہی ہیں۔
تیزی سے رونما ہوتے شدید موسمی تغیرات سیلاب، خشک سالی اور گرمی کی لہروں سے پانی کی کمی میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان سے لے کر امریکہ اور کینیا تک تباہ کن مصائب کا باعث بن رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی حرارت میں2سے4سینٹی گریڈ کے درمیان تبدیلی سے 4 ارب لوگوں کو کسی نہ کسی سطح پر پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب تیزی سے رونما ہوتے موسمیاتی تغیرات کے باعث پانی ذخیرہ کرنے کے بہت سے نظام غیر موزوں ہو رہے ہیں بلکہ کچھ خطوں میں غیر موثر ہو چکے ہیں۔
پانی کا بڑھتا ہوا بحران اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا کو پانی کے ذخیرہ کرنے کے وسیع فرق کا سامنا ہے اور پانی ذخیرہ کرنے کی ضروری مقدار اور موجود ذخائر کے درمیان فرق تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مہر کاشف یونس نے کہا کہ گذشتہ نصف صدی کے دوران عالمی آبادی دوگنا ہو گئی ہے جبکہ قدرتی میٹھے پانی کے ذخائر میں جس کی وجہ بڑی گلیشیئرز اور برف کا پگھلنا اور گیلے علاقوں( ویٹ لینڈز) اور سیلابی میدانوں کی تباہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، تعمیر شدہ ذخائر میں پانی کی مقدار کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق اپنے اہداف کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو خاموش بیٹھنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی موسمیاتی تغیر پذیری کی وجہ سے پانی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پانی ذخیرہ کرنے کے تصور اور انتظام کے طریقوں میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
اکیسویں صدی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی پرانی منصوبہ بندی اور روایتی طریقے کس طرح کار آمد ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال پریشان کن ہے۔ پانی کے ذخائر میں ہونے والی سرمایہ کاری در پیش چیلنج کے مقابلے میں بہت کم ہے اس لئے اس حوالے سے سوچ اور سٹریٹجی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے پانی ذخیرہ کرنے کی حکمت عملی کو تیار کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ ایک جامع حکمت عملی جس میں تمام معاشی شعبے، سرکاری و نجی اسٹیک ہولڈرز اور بھر پور سرمایہ کاری شامل ہو ہمیں مضبوط بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کا پائیدار حل کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔
مہر کاشف یونس نے کہا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ مستقبل میں وہ خطے سب سے زیادہ قابل بھروسہ ہوں گے جو اپنے پانی کو محفوظ کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ ذخائر تیار کریں گے۔ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ترقی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور انسانی مشکلات کو کم کرنے کیلئے پانی کو ذخیرہ کرنے کے سمارٹ سٹوریج ہی بہترین حل ثابت ہو سکتے ہیں۔