ترقی یافتہ جمہوریتوں میں اتفاق رائے سے حل تلاش کیا جاتا ہے،جمہوری قوتیں جب آپس میں لڑتی ہیں تو غیر جمہوری قوتوں کا کردار بڑھ جاتا ہے ،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا نجی ٹی وی کو انٹرویو

183
ترقی یافتہ جمہوریتوں میں اتفاق رائے سے حل تلاش کیا جاتا ہے،جمہوری قوتیں جب آپس میں لڑتی ہیں تو غیر جمہوری قوتوں کا کردار بڑھ جاتا ہے ،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا نجی ٹی وی کو انٹرویو

اسلام آباد۔29مارچ (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں اتفاق رائے سے حل تلاش کیا جاتا ہے،جمہوری قوتیں جب آپس میں لڑتی ہیں تو غیر جمہوری قوتوں کا کردار بڑھ جاتا ہے ، اس وقت بحران کی صورتحال ہے ،ایسے میں عدالتی اصلاحات قانون لانا مناسب وقت نہیں، ملکی سیاست میں پولرائزیشن اور لڑائی کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوپایا ،نئے آرمی چیف سے عمران خان سے ملاقات کی بات نہیں کی ، فوج اگر سیاست سے دور ہونا چاہتی ہے تو سیاست دان اس سے فائدہ اٹھائیں، ،ملک اور آئین کو بچانا بہت ضروری ہے،

کسی کی ویڈیو یا آڈیو لیک کرنا غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے ، اعزازات دینا وفاق یا صوبوں کا نہیں صدر مملکت کا اختیار ہے جسکی کافی عرصہ سے خلاف ورزی ہورہی ہے ،عمران خان دور میں بھی اس معاملے کی نشاندہی کی تھی ۔ وہ بدھ کی رات نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اس وقت بحران کی صورتحال ہے ،ایسے میں عدالتی اصلاحات قانون لانا مناسب وقت نہیں ہے، اس بل کی ٹائمنگ بہتر کی جاسکتی تھی ، اس بل کے ڈرافٹ کو پڑھاہے ،

ایوان سے ہو کے آنے کے بعد میرے پاس آئے گا تو اس وقت دیکھوں گا کہ اس پر کیا فیصلہ کیا جائے ، میری کوشش ہوگی کہ میرا کردار بحران حل کرنے والا ہو ۔ انہوں نے کہا کہ جب انسان پر دبائو پڑتا ہے تو وہ پریشان ہوجاتا ہے، پی ٹی آئی کے لیڈر نے بھی دبائو کے وقت کچھ الفاظ ادا کیے تھے وہ الفاظ ادا نہیں کیے جانے چاہیئیں تھے ۔ اسی طرح جب اداروں پر دبائو پڑتا ہے اس میں کریکس نظر آنے لگتے ہیں ، اس وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ انسان پر اس طرح کا دبائو نہ ڈالا جائے ،

یہ کیفیت جیسے انسانوں پر ہے ایسے ہی اداروں پر ہے۔ انہو ں نے کہا کہ آئین بننے کے چار سال بعد لپیٹ دیا گیا ،پھر بحال ہوا اور پھر مختلف اوقات میں آئین معطل رہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات کی تاریخ کو تبدیل کرسکتا ہے ، باقی اداروں میں بھی آپس کی تقسیم نہیں ہونی چاہیے ، میڈیا رپورٹس کے مطابق کسی ادارے نے سکیورٹی سے معذرت کی تو کسی نے کہا کہ پیسے نہیں دے سکتے تو کسی نے کہا آر اوز نہیں دے سکتے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کے آئین میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کی مدت درج ہے ، ذوالفقار علی بھٹو نے بھی الیکشن کا اعلان کیا تھا ۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ججز پر بھی مشکل وقت ہے ،آپس میں اشتراک پیدا کریں، آپس کے معاملات باہر آتے ہیں تو فیصلوں پر باتیں کی جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ چند مہینوں میں پاکستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں سامنے آئیں ، میں نے وزیراعظم کو انسانی حقوق کے حوالے سے جو خط لکھا اسے غلط تناظر میں لیا گیا ،میں نے اس خط میں 2021-22 ء میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات کی حالانکہ وہ پی ٹی آئی کا دور تھا ، میں نے کہا کہ ان چیزوں میں بہتری آنی چاہیے،مجھے وزیراعظم کے جواب پر افسوس ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں اگر کوئی اس طرح کا واقعہ ہوتو میں براہ راست وزیر انسانی حقوق سے بات کر لیتا تھا ، اس دور میں بھی بہت سی وضاحتیں مانگیں ، اب اس لیول پر کوئی بات ہی نہیں ہوتی ۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ آئین میں درج ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کوئی تمغہ نہیں دے سکتی ،صرف صدر مملکت تغمہ دے سکتا ہے ،پی ٹی آئی کے دور میں بھی اس بات کی نشاندہی کی ہے ، یہ معاملہ ایڈوائس سے متعلق ہے، عمران خان حکومت میں بھی بہت سے ایوارڑ کے خلاف تھا ۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں تقسیم پہلے سے ہے ، ذوالفقار علی بھٹو کے فیصلے کے بعد دیکھ لیں ،صفدر شاہ کو ملک چھوڑنا پڑا ، عدالتوں میں 100فیصد اتفاق رائے نہیں ہوتا ، فیصلے میں تقسیم ہوسکتی ہے مگر ذات کی بنیاد پر تقسیم ہونی نہیں چاہیے اور انا بھی نہیں ہونی چاہیے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دو افراد کے مابین ذاتی گفتگو کسی اور کے لئے نہیں ہے ، اس معاملے پرکئی مرتبہ پارلیمنٹ کے اندر خطاب میں بھی روشنی ڈالی ، کسی کی ویڈیو یا آڈیو لیک کرنا غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے ، کال ٹیپ کرنے والے اداروں کو احتیاط کرنی چاہیے ، صرف دہشت گرد کی کال ٹیپ ہونی چاہیے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میری خواہش پہلے بھی یہ ہی تھی کہ پولرائزیشن جو کہ خطرناک ہے اسے کم کیا جائے ،لڑائیاں کم ہوجائیں لیکن میری کوشش کامیاب نہیں ہوسکی ۔ انہوں نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی عمران خان سے ملاقات کی کوئی کوشش نہیں کی ، ان سے ملاقات کے دوران معاملات کو بہتر کرنے کی بات ہوتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ فوج اگر سیاست سے دور ہونا چاہتی ہے تو سیاستدان اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شملہ معاہدہ ، 1973 آئین میں ذوالفقار علی بھٹو کا کلیدی کردار رہا ، آئین کی طاقت عوام ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کسی کی نااہلی مسئلے کا حل نہیں ہے، کسی پارٹی پرپابندی عائد نہیں ہونی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے بعد ملک کو استحکام کی طرف لیجانے کا کریڈٹ آصف علی زرداری کو جاتا ہے ، اس وقت انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا ۔