سیاسی درجہ حرارت کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے،سارے طبقات کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں بھی اتفاق رائے ہونا چاہیئے،اعظم نذیر تارڑ

87

اسلام آباد۔31مارچ (اے پی پی):وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ملک بھر کی بار کونسلز ،پارلیمان ، سول سوسائٹی سے یہ آواز آرہی ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے ،سارے طبقات کہہ رہے ہیں کہ سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں بھی اتفاق رائے ہونا چاہیے ، وزیراعظم اور سیاسی قائدین نے ایک سیاسی اجلاس بلا لیا ہے تا کہ فیصلہ ہوسکے کہ موجودہ حالات میں تین رکنی بنچ سماعت کرے گا تواس کے سیاسی استحکام پر کیا اثرات آئیں گے؟، سیاسی قیادت مل بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریگی ۔

وہ جمعہ کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب ، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ کے ہمراہ سپریم کورٹ کے باہر میڈ یا سے گفتگو کر رہے تھے ۔

وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ گذشتہ کچھ دنوں میں عدالت کے معاملات ،ملک کی سیاسی صورتحال پر 9 رکنی بنچ نے صوبوں کے الیکشن بارے ازخود نوٹس کی سماعت کی ،پھر یہ پانچ رکنی بنچ میں منتقل ہوگیا ۔ جب فیصلہ آیا کہ یہ پٹیشن مسترد ہوئی ہے ،اس پر ملا جلا رجحان سامنے آیا ۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز پانچ رکنی بنچ کے روبرو معاملہ آیا تو ایک جج نے اپنے فیصلے بارے میں کہا کہ فل کورٹ میٹنگ کر کے لائحہ عمل طے کیے جائیں کہ 184 تین کے مقدمات کیسے سنیں جائیں ، آج جسٹس مندوخیل نے بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کی ہے، سب کی توقع تھی کہ چیف جسٹس گھر کے بڑے کے طور پر سب کو ساتھ لیکر چلیں گے ، اس کے لئے سب سے پہلے فل کورٹ میٹنگ کریں گے اسکے بعد معاملات آگے بڑھیں گے ، میرا بھی یہ ہی خیال اور رائے تھی کہ معاملہ فل کورٹ میٹنگ میں جائے ، چیف جسٹس اپنا گھر یکجا کریں ۔

انہوں نے کہا کہ جب تین رکنی بنیچ نے سماعت شروع کی تو پاکستان بار کونسل اور دیگر بار کونسلز اور اٹارٹی جنرل نے بھی استدعا کی لیکن چیف جسٹس نے مناسب سمجھا کہ تین رکنی بنچ ہی سنے گا اس سے ایک بحران کی شکل اختیار ہورہی ہے ،ایسی صورتحال میں جب پارلیمان نے قانون سازی کر دی ہے ،صدر مملکت کے پاس دستخط کے لئے گیا ہوا ہے ان سب باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم توقع کر رہے ہیں کہ چیف جسٹس اپنے دیگر ججز کو اعتماد میں لیکر ان معاملات پر بات کریں گے اور کس طرح سلسلے کو آگے لیکر چلنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بار کونسلز بھی کہہ رہی کہ سیاسی تقسیم نظر آرہی ہو تو عدالت کو اکٹھے بیٹھ کر حل کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت معاشی بحران سے گذر رہا ہے اس میں آئینی بحران بھی آگیا تو معاملات مزید گھمبیر ہوجائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ عدالت عظمی میں بھی یہ ہی کہا جارہا ہے کہ گفت و شنید ہونی چاہیے، ہم کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے اندر بھی گفت و شنید ہونی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور سیاسی قائدین نے ایک سیاسی اجلاس بلا لیا ہے تا کہ فیصلہ ہوسکے کہ موجودہ حالات میں تین رکنی بنچ سماعت کرے گا تو سیاسی استحکام پر کیا اثرات آئیں گے، سیاسی قیادت مل بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریگی ۔

انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کا فرض ہے کہ وہ اجتماعی سوچ کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کے لئے بیٹھیں ،اگر اقلیتی فیصلوں پر عمل درآمد کریں گے تو اسکے اچھے نتائج نہیں آئیں گے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو اتفاق رائے کی بات کررہے ہیں اس فورم کے اندر بھی اتفاق رائے کے لئے فل کورٹ بیٹھ کر حکم جاری کرتا کہ معاملات کو اس نہج پر لیکر جائیں ، آدھی سپریم کورٹ کچھ اور کہہ رہی ہے تو آدھی کچھ اور کہہ رہی ہے اور سپریم کورٹ کے سربراہ کا اپنا موقف ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس نظام میں تین دہائیاں گذاری ہیں، بار ، پارلیمان ، سول سوسائٹی سے یہ آواز آرہی ہے کہ سیاسی ٹمپریچر کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے ،سارے طبقات کہہ رہے ہیں کہ سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں بھی اتفاق رائے ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو مل کر آئینی راستہ اور سیاسی استحکام دینا چاہئیے ۔