اسلام آباد۔4اپریل (اے پی پی):سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا جس کے بعد شرح سود 21 فیصد پر پہنچ گئی۔
سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری بیان کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے آج اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 100 بیسس پوائنٹس اضافہ کر کے21 فیصد تک بڑھانے کا فیصلہ کیا۔مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مارچ 2023 میں مہنگائی میں مزید 35.4فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور مستقبل قریب میں اس کے زائد رہنے کی ہی توقع ہے۔ زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے پالیسی ریٹ کو100 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 21فیصد کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔
سٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ مارچ 2023 میں مہنگائی مزید بڑھ کر 35.4فیصد ہوگئی اور توقع ہے کہ قریبی مدت میں بلند رہے گی۔ تاہم یہ اشارے ہیں کہ مہنگائی کی توقعات ایک یکساں سطح پر آتی جارہی ہیں گو کہ یہ بلند سطح ہے۔ ایم پی سی آ کے فیصلے کو وسط مدتی ہدف ، جو قیمتوں کے استحکام کا مقصد حاصل کرنے کے لیے بے حد اہمیت کا حامل ہے، کے گرد مہنگائی کی توقعات کو برقرار رکھنے کی جانب اہم قدم کے طور پر دیکھتی ہے۔ کمیٹی نے مزید کہا کہ پاکستان کا مالی شعبہ زیادہ تر مستحکم ہے جبکہ معاشی سرگرمیوں میں مسلسل اعتدال آتا جارہا ہے۔
کمیٹی نے گذشتہ اجلاس سے اب تک ایسی تین اہم پیش رفت نوٹ کیں جن کے کلی اقتصادی منظرنامے پر مضمرات ہوں گے۔ پہلی، جاری کھاتے کا خسارہ خاصی حد تک اور اتنا کم ہوا ہے جس کی توقع نہ تھی، اور اس کی بڑی وجہ درآمدات کو قابلِ لحاظ حد تک محدود کرنا ہے۔ اس سے قطع نظر، توازن ادائیگی کی مجموعی پوزیشن بدستور دبائو میں ہے، زرِمبادلہ کے ذخائر اب بھی پست سطح پر ہیں۔ دوسری، آئی ایم ایف کے توسیعی ای ایف ایف پروگرام کے تحت نویں جائزے کی تکمیل کے لیے خاصی پیش رفت ہو چکی ہے۔ تیسری، بینکاری کے عالمی نظام میں حالیہ تنائو سے بین الاقوامی سیالیت اور مالی صورتِ حال مزید سخت ہوئی ہے۔
ان حالات نے پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے سرمائے کی بین الاقوامی مارکیٹوں تک رسائی میں مشکلات بڑھا دی ہیں۔ اس تناظر میں، زری پالیسی کمیٹی موجودہ زری پالیسی موقف کو مناسب سمجھتی ہے، اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ آج کے فیصلے اور گذشتہ فیصلوں کی مجموعی زری سختی سے اگلی آٹھ سہ ماہیوں کے دوران مہنگائی کے وسط مدتی ہدف کے حصول میں مدد ملے گی۔ تاہم کمیٹی نے یہ بات محسوس کی کہ عالمی مالی صورتِ حال سے منسلک غیر یقینی کیفیت اور ملکی سیاسی صورتِ حال اس تجزیہ کے لیے خطرات کا سبب بن سکتی ہے۔
ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ اقتصادی سرگرمی کے بارے میں ملنے والے اعدادوشمار مسلسل وسیع البنیاد سست روی کی عکاسی کرتے ہیں۔ بالخصوص، حالیہ مہینوں کے دوران گاڑیوں اور پٹرولیم مصنوعات کی فروخت کے حجم میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اسی طرح، بڑے پیمانے کی اشیاء سازی (ایل ایس ایم) میں ہونے والی تخفیف میں تیزی آئی اور وہ جنوری میں 7.9 فیصدسال بسال ہوگئی۔ مجموعی طور پر، جولائی تا جنوری مالی سال 23 کے دوران گذشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی کی پیداوار میں 4.4 فیصد کمی آئی۔ ان رجحانات کی عکاسی کرتے ہوئے، فروری کے دوران مسلسل نویں مہینے بجلی کی پیداوار میں کمی آئی۔ زراعت میں، کپاس کی آمد کی معلومات حسبِ توقع ہیں تاہم، گندم کی پیداوار کا ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے۔
فروری 2023 میں جاری کھاتے میں صرف 74 ملین ڈالر کا خسارہ دیکھا گیا اور جولائی تا فروری مالی سال 23ء میں مجموعی خسارہ اب 3.9 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو گذشتہ برس کے اسی عرصے کی نسبت تقریباً 68 فیصد کم ہے۔ اس کی عکاسی بنیادی طور پر درآمدات سکڑ جانے سے ہوتی ہے، جو ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں مجموعی کمی سے زیادہ رہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ فروری میں ماہ بہ ماہ بنیاد پر کارکنوں کی ترسیلات میں تھوڑی سی بحالی ہوئی اور آئندہ مہینوں کے دوران اضافے کی یہ لہر جاری رہنے کا امکان ہے۔ تاہم، جاری کھاتے کے پست خسارے کے باوجود قرضوں کی وصولی کی نسبت بلند ادائیگیوں نے زرمبادلہ کے ذخائر کو دبائو میں رکھا ہوا ہے۔
لہٰذا، کمیٹی نے اس بات پر دوبارہ زور دیا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی جلد تکمیل زرمبادلہ کے بفرز بڑھانے کے لیے اشد ضروری ہے۔ زری پالیسی کمیٹی کے مطابق جولائی تا جنوری مالی سال 23ء کے دوران مالیاتی نتائج معاشی استحکام حاصل کرنے کے پس منظر میں حوصلہ افزا رہے ہیں۔ جولائی تا جنوری مالی سال 23 میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 2.3 فیصد تک محدود رہا، جو گذشتہ برس کے اسی عرصے میں 2.8 فیصد تھا، جبکہ گذشتہ برس 0.3 فیصد خسارے کی نسبت بنیادی توازن جی ڈی پی کا 1.1 فیصد فاضل درج کیا گیا۔ بنیادی توازن میں یہ بہتری پست زرِاعانت، گرانٹس اور ترقیاتی مصارف کے باعث آئی۔ تاہم، ٹیکس محاصل میں نمو ہدف سے کم رہی ہے، جس کی وجوہ معاشی سرگرمی میں سست روی ، درآمدات میں کمی اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے پالیسی پر ناکافی توجہ ہیں، دوسری طرف، قرضوں کی واپسی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس پس منظر میں کمیٹی نے نوٹ کیا کہ موجودہ زری سختی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مجوزہ مالیاتی یکجائی کی فراہمی اہم ہے تاکہ قیمتوں میں استحکام لایا جاسکے۔
فروری میں زر وسیع کی نمو میں معمولی اضافہ ہوا، جس کا بنیادی سبب بینکاری نظام کے خالص ملکی اثاثوں میں خاصی توسیع تھی۔ اس کا اہم سبب سرکاری شعبے کی بلند قرض گیری تھی کیونکہ نجی شعبے کے قرضوں کی نمو فروری 2022 کے 18.6 فیصد سے تیزی سے کم ہوکر فروری 2023 میں 11.1 فیصد پر آ گئی۔ ماہانہ بنیادوں پر فروری مسلسل دوسرا مہینہ تھا، جس میں نجی شعبے کے قرضوں میں کمی دیکھی گئی۔ اس کمی کا سبب معین سرمایہ کاری اور صارفی قرضوں کی واپسی تھی، جبکہ اس مہینے میں جاری سرمائے کےقرضوں میں معمولی موسمی اضافہ دیکھا گیا۔ زری پالیسی کمیٹی کو توقع تھی، قومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی مارچ 2023 میں مزید اضافے کے ساتھ 35.4 فیصد تک پہنچ گئی، جس کےنتیجے میں جولائی تا مارچ مالی سال 23ء میں اوسط مہنگائی 27.3 فیصد رہی۔ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مہنگائی میں اضافہ وسیع البنیاد تھا، تاہم اس کا بڑا حصہ غذا اور توانائی کے اجزا پر مشتمل تھا۔
یہ حالات ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں اضافے کے اثرات کی منتقلی، توانائی پر بلا ہدف زراعانت میں کمی اور شرح مبادلہ کی قدر میں حالیہ کمی کی عکاسی کرتے ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قوزی مہنگائی (core inflation)شہری باسکٹ میں بڑھ کر 18.6 فیصد اور دیہی باسکٹ میں 23.1 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جس سے مذکورہ بالا ردوبدل کے دورِ ثانی اثرات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ کمیٹی کی یہ رائے بھی تھی کہ قوزی مہنگائی میں اضافے کا ایک جزوی سبب مہنگائی کی بلند توقعات تھیں، جس کی نشاندہی احساسات کے حالیہ سرویزسے ہوتی ہے۔ زری پالیسی کمیٹی کے خیال میں ان توقعات پر قابو پانے کےلیے موجودہ زری پالیسی موقف مناسب ہے تاکہ مستقبل بین بنیادوں پر حقیقی شرح سود مثبت حدود میں ر ہے۔