اسلام آباد۔11اپریل (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ سابق حکومت نے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق اختیاروزارت انسانی حقوق کو دے دیا تھا، ہم نے حکومت سنبھالتے ہی کابینہ اور پارلیمان کی منظوری سے یہ اختیار واپس وزارت اطلاعات و نشریات کو دلایا ہے،ہم نے کسی صحافی کے خلاف پیکا قانون کے تحت مقدمے نہیں بنائے۔ وہ منگل کو یہاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات میں اظہار خیال کر رہی تھیں ۔ پی ٹی وی ہیڈکواٹر میں منعقدہ اجلاس کی صدارت چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کی ۔ آزادی صحافت کے حوالے سے معاملے پر سیر حاصل بحث کی گئی ۔
سینیٹر فیصل جاوید کے میڈیا کے خلاف مقدمات اور انتقامی کارروائیوں کی دہائی پر سینیٹر عرفان صدیقی اور سینیٹر وقار مہدی نے تجویز دی کہ میڈیا مالکان کو بلا کر سابقہ اور موجودہ دور میں آزادی صحافت کا موازنہ کرا لیتے ہیں کہ کس دور میں کیا ہوا؟ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ سابقہ اور موجودہ ادوار کی پوری کہانی کمیٹی میں آنی چاہیئے،میں تو خود سابقہ حکومت کی انتقامی کارروائی کا ثبوت بیٹھا ہوں،میر شکیل الرحمن اور دیگر میڈیا پرسنز کو بھی بلائیں، ان سے پوچھیں گزشتہ چار سال میں کیا ہوا۔ چیئرمین کمیٹی فیصل جاوید نے چیئرمین پیمرا سے مطالبہ کیا کہ یقین دہانی کرائیں عمران خان کی تقریر تمام چینلز پر نشر ہوگی۔
کمیٹی ارکان نے اس پر اعتراض کیا اور قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ پرائیویٹ میڈیا کو چئیرمن پیمرا یہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ چیئرمین پیمراسلیم بیگ نے کہا کہ پیمرا کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی تقریر دکھانے کے لئے چینلز کو نہیں کہہ سکتا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ ایک سال میں کوئی چینل بند ہوا نہ ہی کوئی پروگرام، ایک سال میں کسی کے ناک کی ہڈی توڑی، نہ پسلیاں توڑیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ میڈیا سے زیادتیاں ہو رہی ہیں، چینل بند ہورہے ہیں، جس پر وزیر اطلاعات نے سوال کیا کہ بتائیں کون سا چینل بند ہوا ہے، اس سوال پرسینیٹر فیصل جاوید لاجواب ہوگئے۔
وزیر اطلاعات نے چیئرمین کمیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حقائق اور اعدادوشمار لائیں پھر بات کریں، ہم نے کسی صحافی کے خلاف پیکا قانون کے تحت مقدمے نہیں بنائے۔ وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے سوال اٹھایا کہ نوازشریف پر پابندی کس نے لگائی تھی؟ عرفان صدیقی کو آدھی رات کس نے گرفتار کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ یہ گزشتہ چار سال والا سیاہ دور نہیں، جہاں پروگرام، کالم اور چینل بند کئے جاتے تھے، میڈیا کی آزادی پر مکمل یقین ہی نہیں رکھتے اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ سینیٹر سید وقار مہدی نے کہا کہ ریڈیو پاکستان کے ملازمین کی بیواؤں کی پینشن کی 20 رمضان تک ادائیگی کا وعدہ کیاگیا تھا جس پر ڈی جی ریڈیو پاکستان طاہر حسن نے کہا ہے کہ رقم کا بندوست ہوگیا ہے، پینشنرز کی بیواؤں کو کل رقوم ادا کر دی جائیں گی ۔
وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ پچھلی حکومت نے ریڈیو پاکستان کے پرائیویٹ بزنس کا عمل شروع کیا تھا، منصوبہ صرف کاغذوں میں تھا، عملی کام نہیں ہوا تھا،ہم نے ریڈیو بزنس پلان کی تیاری کا آغاز کیا، ڈی جی ریڈیو نے ایک پلان تیار کر لیا ہے لیکن ابھی وزارت کو باضابطہ پیش نہیں ہوا،ریڈیو پاکستان کو زمین کی فروخت یا پرائیویٹ شعبے کو دینے کی کوئی اجازت نہیں دی گئی ۔
انہوں نے کہا کہ ریڈیو کی زمین پر سینما بنانے کی تجویز کا جائزہ لینے کا کہا تھا تاکہ ریڈیو کی آمدن ہو سکے، پی ٹی وی اور ریڈیو کے رپورٹرز پرائیویٹ میڈیا کی طرح اب فیلڈ میں نظر آئیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ آف دی آرٹ چار پوڈکاسٹ سٹوڈیوز ریڈیو میں تیار ہوچکے ہیں۔وزیر اطلاعات نے کمیٹی ارکان کو ریڈیو کے دورے اور پوڈکاسٹ سٹوڈیوز کے معا ئنے کی دعوت بھی دی ۔ چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد ہوا ہے،میڈیا کی ایڈیٹوریل ججمنٹ پر ہمارا اختیار نہیں،عمران خان کی تقریر دکھانے یا نہ دکھانے کا فیصلہ چینلز خود کرتے ہیں،پیمرا نے کوئی پابندی نہیں لگائی ۔