پرامن اور مستحکم افغانستان سب کے مفاد میں ہے، افغانستان کے ہمسایہ ممالک افغانستان میں امن اور استحکام کے خواہشمند ہیں ، وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھرکا سمرقند میں افغانستان کے پڑوسی ممالک کے چوتھے اجلاس کے موقع پر خطاب

104

سمرقند۔13اپریل (اے پی پی):وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ پرامن اور مستحکم افغانستان سب کے مفاد میں ہے، مسلسل تنازعات اور عدم استحکام سے نہ صرف افغانستان اور اس کے عوام کو خطرہ ہے بلکہ اس کے خطے اور اس سے باہر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے، افغانستان کے ہمسایہ ممالک افغانستان میں امن اور استحکام کے خواہشمند ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو ازبکستان کے شہر سمرقند میں افغانستان کے پڑوسی ممالک کے چوتھے اجلاس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وزیر مملکت نے کہا کہ افغانستان کےپڑوسیوں کا فارمیٹ اس پختہ یقین پر مبنی ہے کہ ہمارا خطہ نہ صرف مشترکہ ماضی بلکہ ایک مشترکہ مستقبل کا بھی پابند ہے ہے، ہماری قسمت آپس میں جڑی ہوئی ہے، ان گہرے تاریخی اور ثقافتی رشتوں کی رہنمائی میں یہ فطری بات ہے کہ ہم افغانستان کی صورتحال کے لیے علاقائی نقطہ نظر کو فروغ دینے کے لیے اس قدر اعلیٰ ترجیح دیتے ہیں۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ اسلام آباد سے تہران اور تونسی سے سمرقند تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک پرامن، مستحکم اور باہم مربوط افغانستان کے لیے کام کرنے کا مشترکہ عزم ہے، ہم ایک نازک موڑ پر مل رہے ہیں، افغانستان کو اس وقت متعدد اور باہمی طور پر تقویت دینے والے چیلنجز کا سامنا ہے، ملک میں انسانی صورتحال بدستور تشویشناک ہے، 28 ملین افراد میں سے آبادی کے دو تہائی حصہ کو زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔

وزیر مملکت برائے خارجہ امور نے کہا کہ دہشت گردی کی لعنت روزانہ کی بنیاد پر افغان عوام کی زندگیوں کو تباہ کر رہی ہے، دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے پڑوسی ریاستوں اور خطے کو لاحق خطرات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان معیشت پابندیوں اور اربوں ڈالر کے منجمد اثاثوں کے سائے میں کام جاری رکھے ہوئے ہے، دسیوں ہزار افغانوں نے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان میں پناہ لی ہے، ایسے اشارے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ تعداد بڑھ سکتی ہے جو پڑوسی ممالک اور میزبان برادریوں کے لیے نئے چیلنجز پیدا کرسکتی ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب افغان عوام کو بین الاقوامی برادری کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، ہم دنیا کو عام افغان شہریوں پر دروازے بند ہوتے دیکھ رہے ہیں، بڑھتی ہوئی آوازیں خاص طور پر مغرب میں افغانستان سے مکمل طور پر علیحدگی کی وکالت کر رہی ہے تاکہ اس کے مسائل کو ان کے بجائے پڑوسی ممالک تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ افغانستان کو انسانی امداد میں اس سال نمایاں کمی دیکھنے میں آئے گی، بعض لوگ عبوری افغان حکومت کو شامل کرنے کی افادیت پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نقطہ نظر غلط ہے اور ان کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ہمیں غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہیے۔ افغانستان کے عوام کو ترک کرنا ہمیشہ ایک برا انتخاب رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عبوری افغان حکومت کی کچھ پالیسیوں اور اقدامات نے بھی مدد نہیں کی، خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کو معطل کرنے اور انہیں قومی اور بین الاقوامی این جی اوز کے لیے کام کرنے سے روکنے کا فیصلہ افسوسناک ہے، نہ صرف یہ کہ اس سے کاروباری افغان خواتین اور لڑکیوں کو ترقی اور پیشرفت کے لیے ان کے جائز مواقع سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ یہ فائدہ مند روزگار کے حصول کے لیے افغانستان کے بہت سے دوستوں اور خیر خواہوں کی مدد کو بھی روکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیم کا حق خواتین پر احسان نہیں ہے، اسے اپنی مرضی سے دیا جائے، یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جو ہمارے عظیم دین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں درج ہے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ افغانستان سے دہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنے کے لیے بلا تفریق ،مربوط اور یکساں انداز میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، عبوری افغان حکومت کے ساتھ وسیع تر تعاون اور ہم آہنگی اب بھی اہم ہے، ہم اس مقصد کے لیے ہمسایہ ریاستوں اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں زیادہ سے زیادہ سیاسی شمولیت کو فروغ دینے کے مقصد کی طرف پیش رفت ایک اہم ترجیح ہے، سنگین انسانی اور اقتصادی بحران کو روکنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے افغانستان کو درکار اہم تعاون کو روک دیا گیا ہے، اس پالیسی کو فوری طور پر دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے، بین الاقوامی برادری کو اگلے اقدامات کرنے کے لیے عبوری افغان حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھنی چاہیے، ہمیں دونوں اطراف سے بیک وقت وعدوں پر مبنی ایک متوازن نقطہ نظر کی ضرورت ہے، یکجہتی اور تعاون کے جذبے کے تحت افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی مشغولیت پر زور دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا خیال ہے کہ افغانستان کے حوالے سے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، ہمیں نہ صرف باقاعدہ مشاورت جاری رکھنی چاہیے بلکہ افغانستان کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی اور مشترکہ نقطہ نظر بھی تیار کرنا چاہیے، پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ سیاسی و سفارتی، اقتصادی اور انسانی ہمدردی کے ساتھ ساتھ سلامتی اور استحکام کے تینوں ورکنگ گروپس جو ہمارے گزشتہ اجلاس کے دوران قائم ہوئے تھے ایک مفید فریم ورک فراہم کرتے ہیں اور اسے مکمل طور پر فعال کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کاسا 1000، ٹرانس افغان ریلویز، تایی اور دیگرمنصوبے محض اقتصادی منصوبے نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے مشترکہ مستقبل میں سٹریٹجک سرمایہ کاری بھی ہے جو دہشت گردی، منشیات کی سمگلنگ اور افغانستان کو درپیش دیگر چیلنجوں کے خطرے کا ایک موثر مقابلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے قدم کے طور پر ان منصوبوں کے لیے ترجیحی مالی اعانت فراہم کرنے کے لیے ایک وقف کردہ ”کنیکٹیویٹی فنڈ“ پر غور کیا جانا چاہیے۔

وزیر مملکت برائے خارجہ امور نے کہا کہ پاکستان پختہ یقین رکھتا ہے کہ انسانی ہمدردی کی مدد کو سیاسی تحفظات سے الگ رہنا چاہیے، افغان عوام کو دوسروں کے سیاسی انتخاب کا شکار نہ بنایا جائے بلکہ افغانستان کے لوگوں کے لیے مسلسل اور پائیدار انسانی امداد کو یقینی بنایا جانا چاہیے، عالمی برادری کو بھی لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے والے پڑوسی ممالک کی اہم ضروریات کا ادراک رکھنا چاہیے، یہ عالمی برادری کی اجتماعی ذمہ داری ہے، اسے اجتماعی طور پر برداشت کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں افغان حکام کے ساتھ ترجیحات کی درجہ بندی کی بنیاد پر تعاون کا ایک روڈ میپ وضع کرنا چاہیے، دنیا بھر کے 1.8 ارب سے زیادہ مسلمانوں کی نمائندہ آواز کے طور پر او آئی سی کو افغانستان میں ایک منفرد مقام حاصل ہے اور اس کی مثال دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے نہیں ملتی، او آئی سی نے انسانی ہمدردی کے ٹرسٹ فنڈ کے قیام اور افغان فوڈ سکیورٹی پروگرام سمیت متعدد اقدامات کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا بشمول او آئی سی ٹرسٹ فنڈ افغان عوام کی مدد کے لیے ہماری اجتماعی کوششوں کو وسعت دے گا۔ حنا ربانی کھر نے کہا کہ عبوری افغان حکومت کے ساتھ تعمیری روابط ضروری ہیں، دوست اور پڑوسی ہونے کے ناطے ہم افغانستان سے علیحدگی اختیار کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، پڑوسی ممالک کے عمل کا آغاز ہم نے اسلام آباد میں اس پختہ عزم کے ساتھ کیا تھا کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔