روس یوکرین جنگ میں چین ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے، افتخار علی ملک

95

اسلام آباد۔1مئی (اے پی پی):سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر افتخار علی ملک نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ سعودی عرب اور ایران کے مابین چین کی طرف سے ثالثی کے بعد امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ روس یوکرین جنگ میں بھی ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ پیر کو یہاں دی فالکن انٹرنیشنل کے سی ای او میاں اعجاز احمد آرائیں کی قیادت میں تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بحران کا جلد کوئی تصفیہ نظر نہیں آرہا جس نے نہ صرف عالمی خوراک اور توانائی کی سپلائی چین کو متاثر کیا ہے بلکہ اس نے دنیا بھر کو مشکل سے دوچار کیا ہے اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات کی باتیں ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا جیسا کہ چنیی رہنما شی نے کہا ہے ایسی صورتحال میں کوئی فاتح نہیں ہوگا۔ اس میں شامل تمام فریقوں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے اور پوری انسانیت کے مستقبل کو محفوظ بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور مشترکہ طور پر بحران کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ انہوں نے نوٹ کیا ہے کہ اب مثبت سوچ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اس لئے بحران کے سیاسی حل کے لیے کوششیں کی جانی چاہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں رہنمائو ں کے درمیان بات چیت کافی معنی خیز ثابت ہو گی اور بحران کے دیرپا حل کیلئے کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات اور جنگ بندی کو ممکن بنانے کے لیے عملی پیش رفت ہو سکے گی۔ ایک پائیدار اور عملی امن میکانزم کی عدم موجودگی کے باعث یورپ میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے یہ تنازعہ پھوٹ پڑا اور امریکا نے نیٹو کے ذریعے صورتحال کا فائدہ اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ ژی اور زیلنسکی کے درمیان بات چیت امن مذاکرات کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے میں کارآمد ثابت ہو گی۔ ثالثی کی حقیقی روح بھی بات چیت ہے کیونکہ تنازعات کا حل ہتھیاروں اور پابندیوں سے نہیں مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیلنسکی نے چینی حکومت کے خصوصی نمائندے کو یوکرین اور دیگر ممالک میں بھیجنے کی تجویز کا گرمجوشی سے جواب دیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرین بحران کے سیاسی حل کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ بات چیت میں چین کے کردار کا اعتراف کرتا ہے۔

چینی رہنما کے ساتھ بات کرنے کے بعد یوکرین کے رہنما نے ٹویٹ کیا کہ یہ ایک ”طویل اور معنی خیز“ فون کال تھی۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ بدھ کی ٹیلی فون کال سے پتہ چلتا ہے کہ چین نہ تو دور سے جنگ کا تماشا دیکھ رہا ہے اور نہ ہی جلتی پر تیل ڈال رہا ہے۔ اس کے بجائے وہ یوکرین اور روس دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ بحران کو حل کرنے اور سفارتی ذرائع سے امن کی بحالی میں مدد مل سکے۔