پارلیمان نے جو بل پیش کیا ہے وہ ازخود نوٹس کے اختیا ر نہیں بلکہ کے طریقہ کا ر سے متعلق ہے ، معاونین خصوصی ملک احمد خان ، عطا تارڑ

173

اسلام آباد۔2مئی (اے پی پی):معاونین خصوصی ملک احمد خان اور عطا تارڑ نے کہا ہے کہ پارلیمان نے آئین میں ترمیم نہیں ہے بلکہ پروسیجر کی بات ہے ، پارلیمان نے جو بل پیش کیا ہے وہ ازخود نوٹس کے اختیا ر نہیں بلکہ کے طریقہ کا ر سے متعلق ہے ، ہمارا مطالبہ ہے کہ 7 سینئر ترین ججزپر مشتمل بنچ بنایا جائے جو اہم آئینی اور قانون معاملات کو سنے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاون خصوصی ملک احمد خان نے کہا کہ اس وقت دو مسائل سنجیدگی سے سوالات اٹھا رہے ہیں، آرٹیکل 209 کے نیچے رولز آف کنڈیکٹ جو سپریم کورٹ میں بنا ہوا ہے وہ اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ کسی دوست اور عزیز کا مقدمہ نہیں سنیں گے ، جوڈیشل پروپراٹری کہتی ہے کہ جس میں انٹریسٹ ہو وہ کیس نہیں سنا جاسکتا ، لاہور ہائیکورٹ کے جج کی جانب سے پرویز الہی کا مقدمہ سننا ان دونوں کوڈ آف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شوکت خانم ہسپتال کے لئے اکٹھے کیے گئے چندے 100 فیصد اسی منصوبے پر لگے یا سیاسی سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوئے اس کی ابھی تک تحقیق نہیں ہوسکی ۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف خریدی گئی جائیداد پر منی ٹریل مانگی جاتی ہے تو دوسری جانب عطیات میں خوردبرد کی جانب نہیں جاتے ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان نے آئین کے اندر ترمیم نہیں ہے بلکہ پروسیجر کی بات ہے ، پارلیمان نے بل پیش کیا ہے وہ ازخود نوٹس کے اختیا ر نہیں بلکہ طریقہ کا ر سے متعلق ہے ۔ جس طرح جوڈیشل ریویو کا اختیار ہے اسی طرح پارلیمان کے پاس اوور سائیٹ کا بھی اختیار ہے ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان اگر عدلیہ پر حملہ کرے تو معاف ، پولیس پر حملہ کرے تو معاف ، پیٹرول بم پھینکوائے تو معاف ، غنڈوں کے ذریعے حملہ عدالتوں پر حملے کرے تو معاف ، عدت میں نکاح کرے تو معاف ، بیٹی کے بارے میں سچ نہ بولے تو معاف ، ایسا کیوں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وائٹ پیپر جاری کرنے والوں کے دور کی ہر وزارت میں اربوں روپے کی کرپشن سامنے آتی ہے ،جب موجودہ حکومت کارروائی کرتی ہے تو انھیں عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے ۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے سماعت ہوئی ، ایسا قانون جو رائج نہیں ہوا تھا اس کے اطلاق کو روک دیا گیا ، پارلیمان کا کام ہی قانون سازی ہے ، جب قانون بنا ہی نہ ہو اور اس سے پہلے اطلاق کو روک دیا جائے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غیر آئینی ہے ، آئین کی حدود میں رہ کر معاملات کو چلایا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل سمیت 6 بار کونسلز نے ایک جج کی بنچ میں شمولیت پر اعتراضات اٹھائے ہیں جس پر عدالت نے تحریری طور پر اعتراضات جمع کرانے کی ہدایات جاری کیں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ 7 سینئر ترین ججزپر مشتمل بنچ بنایا جائے جو اہم آئینی اور قانون معاملات کو سنے ۔ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے اس کے لئے بنچ کی منصفانہ تشکیل ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ لاہور میں ایک انوکھا واقعہ دیکھنے کو آیا ، پرویز الہی کی ضمانت کی درخواستیں ایک جج جس کا بھائی پارٹی کا ٹکٹ ہولڈر ، ماضی میں وکیل رہا ہو اس کے پاس کیس لگا نا بہت بڑی زیادتی ہے ۔