پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ملک کا بیرونی قرضہ 70 ارب ڈالر سے بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک جا پہنچا ، درآمدی پابندیاں 30 جون تک اٹھا لی جائیں گی، وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹرمحمداسحاق ڈارکی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کوبریفنگ

95
Foreign Minister Mohammad Ishaq Dar
Foreign Minister Mohammad Ishaq Dar

اسلام آباد۔15جون (اے پی پی):وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹرمحمداسحاق ڈارنے کہاہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ملک کا بیرونی قرضہ 70 ارب ڈالر سے بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے جو مالی بے ضابطگییوں کا نتیجہ ہے، درآمدی پابندیاں 30 جون تک اٹھا لی جائیں گی، سالانہ بجٹ آئی ایم ایف کی مشاورت کے بغیر تیار کیا گیا ہے۔

انہوں نے یہ بات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ومحصولات کے اجلاس کوبریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت جمعرات کویہاں منعقد ہوا جس میں فنانس بل 2023 کے بارے میں سفارشات پر غور کیا گیا۔ سینیٹر رخسانہ زبیری کی جانب سے فری لانسرز کو ان کے ریونیو کو برقرار رکھنے میں چھوٹ دینے کی تجویز پر وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ سالانہ بجٹ میں فری لانسرز کوان کی آمدنی کا 35 فیصد برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ 2000 ڈالر زکمانے والے فری لانسرز کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے اور وہ کسی ڈیوٹی کی ادائیگی کے بغیر ہارڈویئر بھی خرید سکتے ہیں۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال میں آئی ٹی انڈسٹری سے 2.5 بلین ڈالر کازرمبادلہ متوقع ہے اور آئندہ سال تک یہ حجم 4.5 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا، انہوں نے کہاکہ آئی ٹی انڈسٹری کی استعداد اوراس شعبہ میں ممکنہ نمو کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیکسوں اورڈیوٹیز میں چھوٹ دی گئی ہے۔ سینیٹر تاج حیدر کی جانب سے ٹینس، بیڈمنٹن ریکٹ اور کھیلوں کے دیگر سامان پر ٹیرف ختم کرنے کی تجویز پر وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیرف کا تعین وزارت تجارت کا اختیار ہے اور اس کی سفارشات بھجوا دی گئی ہیں۔

سینیٹر ذیشان خانزادہ کی جانب سے لیٹرآف کریڈٹ کھولنے سے متعلق انڈسٹری کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی گئی ۔انہوں نے استفسار کیا کہ وزارت نے غیر قانونی سرحدی تجارت کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں جس پروزیرخزانہ نے کہاکہ درآمدی پابندیاں زرمبادلہ اورتجارتی خسارہ کے تناظرمیں عائد کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ملک کا بیرونی قرضہ 70 ارب ڈالر سے بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے جو واضح طور پر مالی بے ضابطگی کا نتیجہ ہے، اخراجات کا بل بیرونی قرضوں کو مدنظر رکھ کربنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کمیٹی کوبتایا کہ درآمدی پابندیاں 30 جون تک اٹھا لی جائیں گی۔

انہوں نے کہاکہ غیر قانونی سرحدی تجارت کی روک تھام میں انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ایف بی آر کے درمیان رابطہ کاری انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ حکام سے بات چیت بھی کی گئی ہے۔ چئیرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے استفسارکیا جس پر وزیرخزانہ نے آئی ایم ایف کی 6 ارب ڈالر کی ضمانت کے مطالبہ کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے منصوبے میں تاخیر ہورہی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جانب سے 3 ارب ڈالر کی گارنٹی فراہم کرکے مطالبات کو پورا کیا گیا ہے اور باقی 3 ارب ڈالر کی ضمانت عالمی بینک اورایشیائی ترقیاتی بینک دے رہاہے ۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے واضح الفاظ میں کہا کہ سالانہ بجٹ آئی ایم ایف کی مشاورت کے بغیر تیار کیا گیا ہے ۔وزیرخزانہ نے کہاکہ آئی ٹی، زراعت اورچھوٹے ودرمیانہ درجہ کا کاروبار ترقی ونمو کے انجن ہیں، ان شعبوں کو دی جانے والی مراعات ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے ناگزیرہے۔

وفاقی وزیر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان اثاثوں سے مالا مال ملک ہے اور آئی ایم ایف کی معاونت کے بغیر بھی انشاء اللہ اپنے معاملات چلائیگا۔ سینیٹر کہدہ بابر نے گوادرمیں مقامی لوگوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کامطالبہ کیا جس پر سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ وزارت اس معاملے پر غور کرے گی اور اس کے بعد قائمہ کمیٹی کو آگاہ کریں گے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے ریڈیو پاکستان کے ملازمین کے مسائل کو اجاگر کیا اورکہاکہ ریڈیوملازمین کو گزشتہ تین ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی ،

انہوں نے کہاکہ بجلی کے بلوں میں صارفین سے وصول کی جانے والی پی ٹی وی فیس کو 35 سے بڑھا کر 50 روپے کر دیا جائے اور اضافی رقم ریڈیو پاکستان کو دی جائے۔ سینیٹ کمیٹی نے تجویز کو تسلیم کرتے ہوئے وزارت خزانہ کو غور کے لیے بھیج دیا۔ تاہم سینیٹر سعدیہ عباسی نے اس تجویز کی مخالفت کی۔