جنیوا ۔13جولائی (اے پی پی):پاکستان نے او آئی سی کی نمائندگی کرتے ہوئے مغرب پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مذہبی منافرت کو روکنے کے اپنے عزم میں محض بیان بازی کام لے رہاہے۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے لئے پاکستان کے مستقل نمائندے خلیل ہاشمی نے 47 رکنی کونسل کے اجلاس کے بعد کہا کہ اجلاس میں قرار داد مخالفت ان ممالک کی طر ف سے کی گئی جو قرآن پاک یا کسی اور مذہبی کتاب کی سرعام بے حرمتی کی مذمت کرنے پر آمادہ نہیں۔
امریکا،یورپی یونین اور برطانیہ نے قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے بارے میں قراردار میں پیش کئے گئے نقطہ نظر سے اختلاف ہے ۔او آئی سی کی طرف سے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئےپاکستانی سفیر خلیل ہاشمی نے کہاکہ اس قراداد کی مخالفت کرنے والوں کے پاس سیاسی ، قانونی اور اخلاقی جرات کی کمی ہے اور کو نسل کو ان سے اسی روئیے کی توقع تھی ۔
انہوں نے کہاکہ قرارداد کے خلاف ووٹ دینے والے ممالک نے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کویہ پیغام دیا ہے کہ مذہبی منافرت کو روکنے کے لیے ان کا عزم صرف بیان بازی تک محدود ہے۔ جن ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ان میں الجیریا، ارجنٹائن ، بنگلہ دیش، بولیویا، کیمرون، چین، آئیوری کوسٹ، کیوبا، اریٹیریا، گبون، گیمبیا، بھارت، قزاخستان ، کرغزستان، ملاوی، ملائیشیا، مالدیپ، مراکش، پاکستان، قطر شامل ہیں۔ ، سینیگال، صومالیہ، جنوبی افریقہ، سوڈان، یوکرین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان، اور ویتنام شامل ہیں جبکہ بیلجیم ، کوسٹاریکا، جمہوریہ چیک، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، لتھوانیا، لکسمبرگ، مونٹی نیگرو، رومانیہ، برطانیہ اور امریکا نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا ۔
قرارداد کے حوالے سے مغرب ممالک کی بدگمانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے سفیرخلیل ہاشمی نے کہایہ اقدام آزادی اظہار کے حق کو کم کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔ اس کا مقصد خصوصی فرائض اور ذمہ داریوں کے ساتھ اس حق کے استعمال کے درمیان ایک محتاط توازن قائم کرنا ہے۔ انہوں نے کہ مجھے افسوس ہے کہ کچھ ریاستوں نے مذہبی منافرت کی لعنت سے نمٹنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ قرارداد کا متن متوازن، موضوعاتی اور حل پر مبنی تھا۔انہوں نے کہاکہ کچھ ممالک کی طرف سے اختیار کیے گئے نقطہ نظر کے برعکس جو موجودہ قرارداد کی مخالفت کرتے ہیں اس قراداد کے متن میں کسی بھی ملک کو نشانہ نہیں بنا یا گیا بلکہ اس کا مقصد مذہبی مقدسات کی توہین کی روک تھام کی عدم موجودگی، قانونی روک تھام اور دانستہ طور پر انسانی حقوق کے نظام کے اثرات سے متعلقہ مسائل کو حل کرنا ہے۔