پائیدار امن جنوبی ایشیا میں معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے ناگزیر ہے، افتخار علی ملک

96
تاجر رہنما افتخار علی ملک

اسلام آباد۔23جولائی (اے پی پی):سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر افتخار علی ملک نے کہا ہے کہ پائیدار امن جنوبی ایشیا سمیت کسی بھی خطے میں معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے ناگزیر ہے۔ اتوار کو یہاں میاں فیض بخش کی سربراہی میں آئی ٹی پروفیشنلز کے زیراہتمام ’جنوبی ایشیا میں استحکام کی کلید‘ کے موضوع پر سیمینار میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے افتخار علی ملک نے کہا کہ افغانستان، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ پر مشتمل جنوبی ایشیا ایک متنوع اور متحرک خطہ ہے جس میں اقتصادی، تکنیکی اور سماجی ترقی کے لیے بے پناہ امکانات اور وسائل موجود ہیں مگر متعدد تنازعات اور تنائواس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی اور سرمایہ کاری کے لیے پرامن حالات ضروری ہیں۔ جب امن و استحکام ہو تو کاروبار پھلتے پھولتے ہیں، تجارت پروان چڑھتی ہے اور بیرونی سرمایہ کاری آتی ہے۔ پرامن حالات علاقائی انضمام، بنیادی ڈھانچے، صنعتوں اور کاروباری ماحول کو فروغ دیتے ہیں جو معاشی کامیابی اور ترقی کی بنیاد بنتے ہیں۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک غربت، موسمیاتی تبدیلیوں، دہشت گردی اور سرحد پار جرائم جیسے مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں اور باہمی تعاون کو فروغ دے کر خطہ مشترکہ وسائل، علم اور مہارتوں کی اجتماعی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امن کے فروغ کے لیے علاقائی تنازعات، سرحد پار دہشت گردی، نسلی اور مذہبی کشیدگی اور سماجی و اقتصادی عدم مساوات جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اعتماد سازی کے اقدامات، عوامی وفود کے تبادلوں کا فروغ اور سارک جیسی علاقائی تنظیموں کو مضبوط کرنا دیرپا اعتماد سازی اور پائیدار امن کی بنیاد سکتا ہے۔ تنازعات، تناو ¿ اور تشدد کے خطرے کو کم کرکے حکومتیں اچھی حکمرانی، قانون کے نفاذ اور بنیادی حقوق کے تحفظ پر توجہ مرکوز کر سکتی ہیں۔ محفوظ ماحول سے باہیمی اعتماد کو فروغ ملتا ہے، سرمایہ کاری آتی ہے اور سیاحت فروغ پاتی ہے جس سے اقتصادی ترقی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جنوبی ایشیا میں قیام امن ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں متعدد اسٹیک ہولڈرز، دیرینہ تنازعات اور جغرافیائی و سیاسی تحفظات شامل ہیں اور ان کو حل کرنے کیلئے تمام فریقین کی مخلصانہ کوششوں، سیاسی عزم اور مکالمے کی ضرورت ہے۔