ڈی ڈالرائزیشن کا عمل ناقابل واپسی ہے، برکس نے جی سیون کو پیچھے چھوڑ دیا، ولادی میر پیوٹن

91
صدر پیوٹن

جوہانسبرگ۔23اگست (اے پی پی):روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کی طرف سے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکی کرنسی ڈالر میں رکھنے کے رجحان میں کمی کا عمل ناقابل واپسی ہے۔وہ جنوبی افریقہ میں برکس سربراہی اجلاس کے شرکا سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ڈالرائزیشن کے دوران دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتیں باہمی لین دین میں ڈالر پر انحصار کو کم کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ برکس کے پانچ ارکان یعنی روس، چین، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ ، نئے عالمی اقتصادی رہنما بن رہے ہیں اور عالمی جی ڈی پی میں ان کا مجموعی حصہ 26 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اگر قوت خرید کی برابری سے پیمائش کی جائے تو برکس نے پہلے ہی سات سرکردہ صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ عالمی معیشت میں برکس کا حصہ 31 فیصد جبکہ جی سیون کا 30 فیصد ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں برکس کے رکن ممالک کے درمیان باہمی سرمایہ کاری میں 6 گنا اضافہ ہوا ہے۔

روسی صدر نے کہا کہ عالمی معیشت میں ان کی کل سرمایہ کاری دوگنا ہو چکی ہے جبکہ ان کی مجموعی برآمدات عالمی برآمدات کا 20 فیصد ہیں۔روسی صدر نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں توانائی اور خوراک کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیےروس اپنے ٹرانسپورٹ اور لاجسٹکس کے راستوں کو قابل اعتماد غیر ملکی شراکت داروں کی طرف موڑنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔

روسی صدر نے کہا کہ روس کے بنیادی اہداف میں شمالی سمندری راستے اور شمال ۔جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور کی ترقی شامل ہے۔ پہلا راستہ روس کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ آرکٹک اوقیانوس سے گزرتے ہوئے یورپ اور مشرق بعید کے درمیان سامان کی تیز تر ترسیل کو یقینی بنائے گا۔ دوسرا روس کی شمالی اور بالٹک بندرگاہوں کو خلیج فارس اور بحر ہند سے جوڑے گا، جس سے یوریشین اور افریقی ممالک کے درمیان کارگو کی نقل و حرکت میں سہولت ہوگی۔

روسی صدر نے کہا کہ ہم گلوبل ساؤتھ کی ریاستوں کو ایندھن، خوراک اور کھاد کی سپلائی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں اور عالمی خوراک اور توانائی کی حفاظت میں فعال طور پر حصہ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے خوراک کے موجودہ بین الاقوامی بحران کا ذمہ دار مغرب کی یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیوں کو قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ غیر قانونی پابندیاں بین الاقوامی اقتصادی صورتحال پر سنگین بوجھ ڈالتی ہیں اور خودمختار ریاستوں کے اثاثوں کو غیر قانونی طور پر منجمد کرنا آزاد تجارت اور اقتصادی تعاون کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

دنیا بھر میں وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات ایسی پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ انہوں نے اناج اور خوراک کی انتہائی بلند قیمتوں کو اس عمل کے تازہ ترین مظہر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بنیادی طور پر سب سے زیادہ کمزور ممالک کو متاثر کرتی ہے۔