پشاور۔ 22 ستمبر (اے پی پی):خیبرپختونخوا میں معلومات تک رسائی قانون(آر ٹی آئی)کے ذریعے صوبائی محتسب برائے خواتین کے وراثت میں حقوق کے تحفظ سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق خواتین کی جانب سے وراثت میں حصہ لینے کے لیے اب تک 1430 شکایات دائرکرائی گئیں ہیں جن میں سے 975 کیسز تاحال زیر سماعت ہیں۔
دستاویز کے مطابق خواتین نے وراثت کے لئے 2020 میں 97 ، 2021 میں 281، 2022 میں 619 اور رواں سال اب تک 433 شکایات جمع کروائی ہیں۔ دستاویز کے مطابق 94 کیسز کو متعلقہ عدالت بھیج دیا گیا ہے، 42 خواتین نے اپنے کیسز واپس لیے، 17 کیسز عدم پیروی کے باعث بند جبکہ 25 کیسز کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت مختلف سول عدالتوں سے حاصل کردہ دستاویز اور پشاور ہائیکورٹ سمیت مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق خیبرپختونخوا کی سول عدالتوں میں خواتین کی جانب سے وراثت میں حصول کے لیے مقدمات کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہے۔
مشتاق احمد جدون اور راشد خان کی جانب سے پاکستان جرنل آف کرمنالوجی کے لیے خیبرپختونخوا میں خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے کے طریقوں کے موضوع پر سروے میں 70 فیصد خواتین نے جواب دیا ہے کہ انہیں وراثت میں اپنے حصے کے بارے میں علم نہیں ہے جبکہ سروے کے دیگر سوالات کے جوابات میں 45 فیصد خواتین نے بتایا ہے کہ ورثا کی فہرست سے ان کا نام خارج کر دیا گیا ہے، 52 فیصد خواتین نے بتایاکہ بھائیوں نے وراثت کے کاغذات پر انگوٹھے کا نشان لگایا یا خاندان کی خواتین سے مختارنامہ لیا گیا۔
سروے میں خواتین سے سوال گیا کہ وہ وراثت میں حصہ کیوں حاصل نہیں کرنا چاہتی ہیں جس پر 71 فیصد خواتین نے جواب دیا کہ وراثت کے حصول کا قانونی طریقہ پیچیدہ اور مہنگا ہے ، جبکہ 10 فیصد خواتین کو قانونی طریقہ کار کا کوئی علم نہیں ہے۔