23.8 C
Islamabad
پیر, مئی 5, 2025
ہومقومی خبریںپاکستان نے ہمیشہ ای سی او کو آگے بڑھانے میں فعال کردار...

پاکستان نے ہمیشہ ای سی او کو آگے بڑھانے میں فعال کردار ادا کیا ہے، ای سی او خطے کو ایک مثالی بلاک دیکھنا چاہتے ہیں، وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کا آذربائیجان میں ای سی او کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب

- Advertisement -

اسلام آباد۔10اکتوبر (اے پی پی):نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ ای سی او کو آگے بڑھانے میں ایک فعال کردار ادا کیا ہے، مستقبل میں بھی تنظیم کی جانب سے پیش کردہ اقدامات کو آگے بڑھانے کے لئے پرعزم ہیں، ای سی او کو اپنے خطے کو ایک مثالی بلاک دیکھنا چاہتے ہیں، پاکستان پارٹنر ریاستوں کے ساتھ مل کر دو طرفہ اور کثیر جہتی چینلز کے ذریعے ٹرانزٹ کنیکٹیویٹی کو بڑھانے اور اپ گریڈ کرنے کے لیے کام کر رہا ہے، گلوبل وارمنگ انسانی تہذیب کے لئے ایک وجودی خطرہ ہے، عبوری افغان حکومت نے گورننس کو بہتر بنانے، بدعنوانی پر قابو پانے اور علاقائی تجارت کو فروغ دینے کے لئے بھی اقدامات کئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو آذربائیجان کے شہر شوشا میں ای سی اوکے 27 ویں وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کو بہت اہمیت دیتا ہے، یہ نہ صرف ہمارے خطے میں باقاعدہ تعامل، قریبی تعاون اور تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے راستے فراہم کرتا ہے بلکہ یہ تیزی سے بدلتے ہوئے جیو پولیٹیکل آرڈر میں ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مستقبل کا وعدہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ ای سی او کو آگے بڑھانے میں ایک فعال کردار ادا کیا ہے اور وہ مستقبل میں بھی تنظیم کی جانب سے پیش کردہ اقدامات کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ای سی او کو اپنے خطے کو ایک مثالی بلاک دیکھنا چاہتے ہیں جو علاقائی ترقی کو تحریک، اجتماعی ترقی کو فروغ اور مشترکہ ترقی کی حوصلہ افزائی کرے ۔

- Advertisement -

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ عالمی امن، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کا ایک لازمی عنصر ہے، ای سی او خطہ 8 ملین مربع کلومیٹر اور نصف ارب افراد پر مشتمل ہے جو دنیا کی 15 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتا ہے، عالمی تجارت میں اس کا حصہ صرف 2 فیصد ہے، ہماری انٹرا ریجنل تجارت خطے کی مجموعی تجارت کے 8 فیصد سے بھی کم ہے اور یہ دیگر علاقائی گروپ بندیوں جیسے کہ یورپی یونین کے بالکل برعکس ہے جہاں انٹرا ریجنل تجارت 70 فیصد سے زیادہ ہے، ہمیں اسے تبدیل کرنے اور علاقائی تجارتی انضمام کی حمایت کے لیے پرعزم کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

جلیل عباس جیلانی نے اسلام آباد میں 13ویں ای سی او سربراہی اجلاس کے دوران اپنائے گئے ”ای سی او ویژن 2025 “ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ہمیں مناسب طریقے سے اس سمت کا روڈ میپ فراہم کیا جس میں علاقائی تجارت میں اضافہ، علاقائی رابطوں کو مضبوط کرنا، بڑے ای سی او ٹرانسپورٹ کوریڈورز کو فعال کرنا، توانائی کی سلامتی اور پائیداری کے حصول کے لیے کوششوں کو مربوط کرنا، بین علاقائی تجارت میں اضافہ، عالمی تجارت میں ای سی او ممالک کی شراکت میں اضافہ اور سیاحت کو فروغ دینا شامل تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں مطلوبہ اہداف اور متوقع اہداف کو پورا کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ ای سی او ویژن 2025 میں بیان کیا گیا ہے اور ٹھوس فوائد حاصل کرنے کے لیے ان کی تکمیل کے لیے ایک حقیقت پسندانہ ٹائم فریم مقرر کرنا ہوگا۔

ای سی او ٹریڈ ایگریمنٹ (ای سی او ٹی اے) ایک تاریخی ترجیحی تجارتی انتظام ہے جس کا مقصد ایک طے شدہ ٹائم فریم پر ہمارے خطے میں ٹیرف کو کم کرنا ہے، اس کا جلد نفاذ ای سی او فریم ورک کے اندر بہتر رابطے کے ذریعے ٹرانزٹ اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام رکن ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ ای سی او ٹی اے کے جلد آپریشنلائزیشن کو ترجیح کے طور پر دیکھیں تاکہ ہمارا خطہ بہتر اقتصادی تعامل اور تجارتی روابط کی حقیقی صلاحیت سے مستفید ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے خطے کی جغرافیائی سیاسی اہمیت بہت زیادہ ہے، تاریخی طور پر سلک روٹ جو کہ جدید دور کے ای سی او خطہ پر مشتمل ہے اور قدیم زمانے سے ہی مشرقی اور مغربی تہذیبوں میں شامل ہونے کا کام کرتا رہا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم شمال۔جنوب اور مشرقی۔ مغربی نصف کرہ کے سنگم پر کھڑے ہیں، دنیا کی تزویراتی طور پر اہم ٹرانسپورٹ کوریڈور اس خطے سے گزرتے ہیں جن میں انٹرنیشنل نارتھ سائوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور ، چین پاکستان اقتصادی راہداری یا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو شامل ہیں۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ای سی او خطے کی جیو اکنامک صلاحیت کو کھولنے کی کلید رابطے میں ہے، ہم اس مقصد کو تین اہم اقدامات اٹھا کر حاصل کر سکتے ہیں جن میں سڑک اور ریل کے منصوبوں کی ترقی، ویزا نظام کو آزاد کرنا اور سرحدی طریقہ کار کو آسان بنانا شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات نہ صرف توانائی کی ہماری علاقائی ضروریات کو پورا اور بین علاقائی تجارت میں اضافہ کریں گے بلکہ ہمیں پائیدار ترقی کے لیے باہمی انحصار پیدا کرنے کے لیے ایک پل کے طور پر کام کرنے کے قابل بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ فریم ورک ایگریمنٹ کے نفاذ کے ساتھ ساتھ استنبول۔تہران۔اسلام آباد روڈ کوریڈور کو فعال کرنا اور اس کے نفاذ کے لیے ایک فنڈ کا قیام ای سی او کی چند اہم ترین شراکتیں ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ٹی آئی آر سسٹم کے تحت نیشنل لاجسٹک سیل آف پاکستان کے ٹرک ایران کے راستے کارگو کو کامیابی سے منتقل کر رہے ہیں، پاکستان پارٹنر ریاستوں کے ساتھ مل کر دو طرفہ اور کثیر جہتی چینلز کے ذریعے ٹرانزٹ کنکٹیویٹی کو بڑھانے اور اپ گریڈ کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے گلوبل وارمنگ کو انسانی تہذیب کے لیے ایک وجودی خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال پاکستان نے تباہ کن مون سون بارشوں اور سیلاب کا سامنا کیا، جس نے 33 ملین سے زائد زندگیوں کو متاثر کیا اور ملک کو 80 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا، ایسی شدید تباہی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے جمہوریہ آذربائیجان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کہ اس نے سال 2025 کو ‘سبز منتقلی اور باہمی ربط کا سال’ قرار دیا جس نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو مرکز میں لایا۔

انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے اب ہمارے پاس ماحولیاتی تعاون پر اعلیٰ سطحی ڈائیلاگ پلیٹ فارم ہے جس کا مقصد ان مسائل کو حل کرنا ہے جو ہم سب کے لئے فکر مند ہیں، اس مسئلے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں مستقبل میں گرین اکانومی کی جانب بروقت منتقلی کے ساتھ ساتھ ابھرتے ہوئے ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے خطے کے اندر ایک وقتی پابند، اچھی مالی امداد اور حکمت عملی کے لحاظ سے مضبوط میکانزم تیار کرنے کی ضرورت کا اعادہ کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں گرین ہائوس گیسوں کے کم از کم اخراج کو یقینی بناتے ہوئے خود کو جدید، وسائل سے بھرپور اور مسابقتی معیشتوں میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں ایک طویل مدتی کثیر جہتی اور بنیادی تبدیلی کے لئے مل کر کام کرنا چاہئے جو ہمیں ای سی اوخطے میں پیداوار اور کھپت کے زیادہ پائیدار نمونوں کی طرف منتقلی کے قابل بنائے۔

وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ افغانستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، کئی دہائیوں کے تنازعات اور عدم استحکام کے بعد افغانستان میں کوئی جنگ نہیں ہے، ملک میں سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، عبوری افغان حکومت نے گورننس کو بہتر بنانے، بدعنوانی پر قابو پانے اور علاقائی تجارت کو فروغ دینے کے لیے بھی اقدامات کئے ہیں، افغانستان میں پوست کی کاشت میں نمایاں کمی عبوری افغان حکومت کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر سامنے آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس شمولیت، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور افغانستان میں مقیم دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے بین الاقوامی خدشات کو دور کرنے میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں ترقی کا راستہ عبوری افغان حکومت کے ساتھ تعمیری روابط کے ذریعے ہوتا ہے، افغانستان کے دوست اور پڑوسی ہونے کے ناطے ہمیں ای سی او کے رکن کی حیثیت سے اس مقصد کے لیے ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں افغانستان میں اقتصادی بحالی اور ترقی کے حصول کے لئے رابطے کا فائدہ اٹھانا چاہئے جو پائیدار امن، استحکام اور خوشحالی کی کلید ہے، کاسا 1000 ، ٹرانس افغان ریلویز، تاپی اور دیگر کنیکٹیویٹی پراجیکٹس محض اقتصادی منصوبے نہیں بلکہ یہ ہمارے مشترکہ مستقبل میں سٹریٹجک سرمایہ کاری بھی ہیں، ہمیں علاقائی روابط کے لئے مشترکہ وژن وضع کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن، خوشحال اور باہم منسلک افغانستان کے مشترکہ نظریات کے لئے ای سی او کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہے، ہم نے ای سی او پلیٹ فارم سے اپنی اجتماعی اور مربوط کوششوں خاص طور پر ٹرانزٹ اور ٹرانسپورٹ کنکٹیویٹی کے شعبے میں ایک طویل سفر طے کیا ہے تاہم ہمارے خطے کے اندر اور باہر کے چیلنجوں نے ای سی او کو اس کے ابتدائی مقاصد کے مطابق ایک مربوط علاقائی اقتصادی تنظیم بنانے کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ ڈالی ہے، تنظیم کو مزید موثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے اصلاح کی مخلصانہ کوشش لازمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ای سی او کے بنیادی مقاصد کے تحفظ اور فروغ سمیت باہم جڑی اور اچھی طرح سے مربوط تنظیم کے طور پر اپنے وژن کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہمیں ای سی او پر مکمل اعتماد ہے اور ہم اس خطے کے عوام کی اجتماعی ترقی اور خوشحالی کے وژن کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو امن، ترقی، ہم آہنگی اور ثقافتی اور تہذیبی تنوع کے احترام کی ضرورت ہے، ہمیں جنگوں اور غیر قانونی قبضوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، دنیا اور عوام میں تنازعات اور تقسیم کو ہوا دینے کے بجائے بات چیت اور سفارت کاری کو فروغ دینے میں مدد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 وبائی امراض سے بمشکل باہر نکلنے والی دنیا جنونی عقیدہ پرستی، مہنگائی، کساد بازاری یا عالمی سپلائی چین میں خلل کے خطرات کا سامنا کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی جس نے غربت اور ناامیدی کو مزید گہرا کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی اس وقت تک محفوظ نہیں جب تک سب محفوظ نہ ہوں، دنیا کو ای سی او خطے کی ثقافتی اور تاریخی طاقت سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اور انسانیت کو قریب لانے اور اسے ان چیلنجوں سے نجات دلانے کے لیے مضبوط اور گہرے پل بنانے کی ضرورت ہے جن کا اسے آج سامنا ہے۔

 

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=399768

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں