مسلمان عالم انسانیت کا 25 فیصد ہیں، ہمیں کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا، وفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد کا مدارس کے طلباء کے سیرت النبیﷺکے موضوع پر تقریری مقابلہ کی تقریب سے خطاب

52
وفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد

اسلام آباد۔13اکتوبر (اے پی پی):وفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد نے کہا ہے کہ مسلمان عالم انسانیت کا 25 فیصد ہیں، ہمیں کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا، عالم اسلام کا معذرت خواہانہ اور مدافعانہ درست طرز عمل نہیں ہے، جنگ بدر کی طرح ہمیں موجودہ صورتحال میں بھی اﷲ کی مدد اور نصرت کا طلبگار ہونا چاہئے۔ یہ بات انہوں نے جمعہ کو صفہ سویٹ ہومز کے زیر اہتمام مدارس کے طلباء کے سیرت النبیﷺکے موضوع پر تقریری مقابلہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ حکمت کی بات بلند آواز سے نہیں بلکہ دلیل اور دماغ کی طاقت سے پیش کی جا سکتی ہے، سرکار دو عالمﷺ ۖ کی حیات مبارکہ کا جائزہ لیا جائے تو تلاش حق، اعلان حق اور نفاذ حق تین باتیں سامنے آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان لیڈر میں قائدانہ صلاحیتیں ہوا کرتی ہیں، اس کا انداز دوٹوک ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک تصور امت بھی ہوا کرتا ہے وہ امت کا تصور کہاں ہے، 57 اسلامی ممالک تو موجود ہیں مگر ان میں امت کے تصور کو بیدا کرنے کی ضرورت ہے، ایمان کے دعویدار کو وہ بات نہیں کرنی چاہئے جس پر وہ خود عمل نہ کرتا ہو، ہم وجہ وجود کائناتﷺ کے امتی ہیں، غزہ کی مائیں اور بچے رو رہے ہیں، مسلمان انسانیت کا 25 فیصد ہیں،

ہمیں عالم انسانیت نظر انداز نہیں کر سکتی، ہمارا معذرت خواہانہ رویہ اور مدافعانہ درست طرز عمل نہیں ہے، ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ہم کس دین کے ماننے والے ہیں۔ انہوں نے قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں جنگ بدر کی طرح موجودہ صورتحال میں بھی اﷲ کی مدد اور نصرت کا طلبگار ہونا چاہئے، رشد و ہدایت کے سوتے قرآن حکیم اور سیرت طیبہ سے ہی پھوٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ پر نہیں تقدیر پر نظر ہونی چاہئے، ہمارے بچوں کو عہد حاضر کے تقاضے معلوم ہونے چاہئیں، ہم ایٹمی قوت ہیں، پورا عالم اسلام بڑی امید سے ہماری طرف دیکھتا ہے مگر ہمارے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں،

ایمان اور توکل لازم و ملزوم ہیں، ہمیں اﷲ سے مدد مانگنے کا طریقہ آنا چاہئے، یہ اس طرح آئے گا جب ہم اﷲ کی قدر کرنے کا حق ادا کریں گے، بچوں کو ایسے عناصر سے اجتناب کرنا چاہئے جو دین کے خلاف ان کے ذہنوں میں سازش ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، حکمت تو بہت آگے کی چیز ہے ،ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم علم کی سرحد تک پہنچ چکے ہیں کیونکہ جہاں علم کی سرحد ختم ہوتی ہے وہاں سے حکمت شروع ہوتی ہے، ہمیں خواہشات کو معبود نہیں بنانا چاہئے، وحی کی حد بھی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں پر عقل کی حد ختم ہوتی ہے۔

انہوں نے علامہ اقبال کے فرمودات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اﷲ سے تعلق پیدا کرکے اور سیرتؐ پر عمل پیرا ہو کر عہد حاضر کے مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے، ہم اس لئے پیچھے ہیں کہ ہم ذہنی اور علمی طور پر بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آنے والا کل بہت روشن ہے، ملک میں مقامی طور پر بہت کام ہو رہا ہے،

علماء قوم کو مایوسی سے نکالنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں، ہمیں مسائل سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، اﷲ کی مدد تو آتی ہے مگر ہمیں خود کو نصرت الٰہی کا حقدار بنانا ہو گا۔ تقریب کے اختتام پر سیرتؐ کے مقابلوں کے اول، دوئم اور سوئم آنے والے مدارس کے طلباء و طالبات کو انعامات سے نوازا گیا۔