سینیٹر عرفان صدیقی کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کا اجلاس

133
سینیٹر عرفان صدیقی کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کا اجلاس

اسلام آباد۔22دسمبر (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کا اجلاس سینیٹر عرفان صدیقی کی زیرصدارت جمعہ کوپارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ سینیٹر سعدیہ عباسی کی جانب سے سینیٹ سیشن میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملے(بی پی ایس) گریڈز/ یونیورسٹی اساتذہ کی سروس اسٹرکچر اور پروموشن پالیسی کی عدم موجودگی کے حوالے سے تفصیلی بحث کی گئی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس معاملے پر ایچ ای سی کی ایک کمیٹی کام کر رہی ہے اور کمیٹی جلد "یونیفارم سروس اسٹرکچر” کے حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرےگی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عرفان صدیقی نے ایچ ای سی حکام کو اس حوالے سے 15جنوری 2024 تک کام مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ۔اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے اساتذہ کو مستقل کئے جانے کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 137 اساتذہ کی مستقلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔

مزید بتایا گیا کہ ایف پی ایس سی کا امتحان پاس کرنے والے 223 اساتذہ کی سفارشات موصول ہوئی تھیں جنہیں سمری کی صورت میں منظورِی کے لیے کابینہ کو ارسال کردیا گیا ہے۔ سیکرٹری تعلیم کا کہنا تھا کہ سمری آئندہ کابینہ کے اجلاس سے منظور ہو جائیگی اور ایسا ہوتے ہی ان اساتذہ کو مستقل کر دیا جائےگا۔ بقیہ ڈیلی ویجز ملازمین کی مستقلی کی بھی منظورِی ہو چکی ہے اور ایف پی ایس سی اساتذہ کی مستقلی کے فوراً بعد انہیں بھی مستقل کر دیا جائےگا۔

اسلام آباد میں ڈیلی ویجز ٹیچرز کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹیچرز کو 32000 روپے ماہانہ کے حساب سے ادائیگی شروع کر دی گئی ہے۔ کمیٹی اجلاس میں وفاقی اردُو یونیورسٹی کی قائم مقام وائس چانسلر نے ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی اور یونیورسٹی کی پرنسپل سیٹ کو اسلام آباد منتقل کئے جانے کے حوالے سے کمیٹی کو بریف کیا۔ قائم مقام وی سی کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی آرڈیننس کے مطابق پرنسپل سیٹ اسلام آباد میں ہوگی مگر ادارے کے 85 فیصد اثاثے اور کیمپس کراچی میں ہیں جن کو اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔

ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ تنخواہوں کی ادائیگی میں مشکلات درپیش ہیں اور فنڈز کی کمی کے باعث صرف 40 فیصد تنخواہ دی جا رہی ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عرفان صدیقی نے یونیورسٹی کی زبوں حالی پر تشویش کا اظہار کیا اور چیئرمین ایچ ای سی کو ہدایت دی کہ وزارت کے ساتھ مل کر قانونی نکتوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی اصولی طور پر پرنسپل سیٹ کی اسلام آباد منتقلی کے حق میں نہیں ہے لیکن اس حوالے سے قانونی معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا۔ چیئرمین ایچ ای سی نے کمیٹی کو بتایا کہ وفاقی اردو یونیورسٹی کی انتظامیہ تمام تر زبوں حالی کی خود ذمہ دار ہے۔

یونیورسٹی میں تمام اصول بالائے طاق رکھتے ہوئے تعیناتیاں اور ترقیابیاں کی گئی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے ایچ ای سی کو دی جانے والے گرانٹ کو بھی نہیں بڑھایا جس کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں۔ پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹیٹوشنز ریگولیٹری اتھارٹی کی چیئر پرسن نے اتھارٹی کے کام، ملازمین اور فنڈز کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دی۔ کمیٹی اراکین نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کوالیفائیڈ اساتذہ کی کمی، سکول فیس میں بےجا اضافے اور پرائیویٹ ملازمین کو کم تنخواہوں کی ادائیگی پر تحفظات کا اظہار کیا۔ چیئر پرسن کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق پرائیویٹ ادارے سالانہ صرف پانچ فیصد فیس بڑھا سکتے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر عرفان صدیقی نے اس حوالے سے ہدایت دی کہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں اتھارٹی، ٹیچرز ٹریننگ اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے اٹھائے گئے تمام اقدامات سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرے۔

صدر پی ٹی اے کی جانب سے تعلیمی اداروں میں جسمانی طور پر معذور بچوں کو سہولیات کو فراہمی کے حوالے سے دائر کی گئی عوامی عرض داشت پر چیئرمین ایچ ای سی نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک کی یونیورسٹیز میں اس طرح کے بچوں کے لیے خصوصی ریمپز بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور بچوں کو امتحانات اور کلاسز کے دوران ہر طرح کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ سکولز میں بھی ایسے بچوں کو مزید سہولیات فراہم کی جائیں۔ چیئرمین کمیٹی نے اس حوالے سے چیئرمین ایچ ای سی اور وفاقی وزارت کے سیکرٹری کو صدر پی ٹی اے کی سفارشات سن کر مزید اقدامات اٹھانے کی ہدایت کر دی۔ کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز، فوزیہ ارشد، فلک ناز چترالی، انجینئر رخسانہ زبیری، سعدیہ عباسی، مشتاق احمد، چیئرمین ایچ ای سی اور سپیشل سیکرٹری وفاقی وزارت تعلیم اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔