اسلام آباد۔12مارچ (اے پی پی):سائبر سکیورٹی میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے موثر کردار کی اہمیت کے پیش نظر شعبہ جات میں صلاحیت میں اضافہ ممکن ہے۔ اس امر کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام ”پاکستان میں مصنوعی ذہانت اور سائبر سکیورٹی کے حوالے سے مشکلات و مواقع“ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کے دوران کیاگیا۔
اس موقع پر وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن شیزا فاطمہ خواجہ نے کہا کہ جدید ڈیٹا سے نئی نسل کو ہم آہنگ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کو جدید فنی تربیت نصاب کے ذریعے دی جائے تاہم نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بہت پیچھے ہے ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بہتر استعمال سے نظام حکمرانی میں بہتری اور شفافیت لائی جا سکتی ہے ،حکومت عوام کو ہر ممکن سہولت اور پاکستان کی برق رفتار ترقی کے لئے عملی اقدامات اٹھائے گی۔ اس موقع پر پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے سینئر مشیر بریگیڈیئر (ر) محمد یاسین نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ ملک میں 25 فیصد سے زائد انٹر نیٹ صارفین 2023 ءمیں سنگین مشکلات کا شکار رہے جو کہ سائبر سیکورٹی سے متعلقہ ہیں، انٹر نیٹ صارفین کے لئے سائبر سیکورٹی جیسے معاملات میں تحفظ کا موثر نظام فوری واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہاکہ مصنوعی ذہانت کا سائبر سیکورٹی میں استعمال منظر نامے کو یکسر تبدیل کر سکتا ہے اس لئے محتاط طرز عمل ناگزیر ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس کے ڈھانچے کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ اور استعمال کرنے والی افرادی قوت کی صلاحیت او ر تربیت ناگزیر ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر مکرم خان نے کہا کہ پی ٹی اے نے سائبر سکیورٹی کی بڑھتی ہوئی مشکلات کے پیش نظر سائبر سکیورٹی پالیسی 28۔2023 ءمتعارف کرائی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سائبرکریمینلز کو پی ٹی اے مکمل نگرانی کےلئے ان کے رحجانات اور ڈیٹا کو تجزیاتی عمل میں گزارنے کی بات کی جا رہی ہے۔اس موقع پر یونیورسٹی آف لیمرک آئرلینڈ کے ڈاکٹر کاشف نصیر نے کہا کہ پاکستان میں ایف آئی اے (سائبر کرائم ونگ ) نے 2020 ءمیں84764 شکایات درج کیں جس میں سوشل میڈیا کے ذریعے مالی فراڈ سمیت متعدد نوعیت کی شکایات شامل تھیں۔
انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ایسے واقعات اور رحجانات اور واقعاتی ردِ عمل سے تحفظ کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ سیمینار سے اظہار خیالات کرتے ہوئے نسٹ یونیورسٹی کے شعبہ مصنوعی ذہانت کے سربراہ یاسر ایاز نے کہا کہ سافٹ وئیر مارکیٹ سے مصنوعی ذہانت کے متعلقہ مصنوعات سے 2025 ءمیں آمدن126 بلین ڈالر تک ہونے کی امید ہے ۔ انہوں نے 37 فیصد اداروں میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جا رہا ہے جس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے 2030 تک 133 ملین افراد ی قوت کی کھپت ممکن ہو سکے گی۔
اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم لا جواب معلومات کے دور میں ہیں ،ہمیں ان معلومات اور ڈیٹا کے استعمال کے لئے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ بھی کرنا چاہئے تاکہ ہم اپنے کام کی ذمہ داری قبول کر سکیں۔ اس موقع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کوانفارمیشن ٹیکنالوجی میں ڈھالنے کی رفتار میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے، دنیا کی رفتار سے توازن برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ فوری سرمایہ کاری کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لئے مصنوعی ذہانت کا استعمال نا گزیر ہے،اس میں مقامی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے مزید اس میں معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ ممکن ہے۔سیمینار سے اظہار خیال کرتے ہوئے لرن ایشیا ءکے سینئر پالیسی ساز محمد اسلم حیات نے کہا کہ سائبر سیکورٹی ریگولیٹری فریم ورک بنانے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر جاز موبی لنک کے نائب سر براہ مدثر حسین نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کا موثر استعمال حکومتی اور نجی شعبہ میں نظامِ خریداری کو مزید فعال اور مفید بنا سکتا ہے۔ وزارت دفاع میں مصنوعی ذہانت کے نائب سر براہ ڈاکٹر فیصل نواز نے کہا کہ اس شعبہ میں نمایاں کام کرنے والے ممالک سے مل کر ڈیٹا کے تبادلے پر دیر پا قومی پالیسی اور پلان کی ضرورت ہے۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر ذاکر سید نے کہا کہ حکومت صنعتی اور تعلیمی شعبہ کو مربوط کر کے افرادی قوت کی صلاحیت میں اضافہ کے لئے تربیت کو یقینی بنائے۔ آخر میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی شعبہ سائنس کی ڈین ڈاکٹر ہاجرہ احمد نے کہا کہ طلبا ءکو تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے رحجان سے روشناس کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نصاب کی اصلاح کی جائے اور پالیسی میں بہتری لائی جائے۔