سرگودہا۔ 12 اکتوبر (اے پی پی):یونیورسٹی آف سرگودھا کے شعبہ اردو زبان و ادب کی جانب سے ”مجید امجد اور مقامی دانش” کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار کی صدارت سابق صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف لاہور،سرگودھا کیمپس ڈاکٹر ارشد محمود ملک نے کی اور اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ڈاکٹر عبدالعزیز بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے جبکہ اس موقع پر صدر شعبہ اردو زبان و ادب یونیورسٹی آف سرگودھا پروفیسر ڈاکٹر نسیم عباس، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عمران اظفر، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سمیرا اعجازاور طلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔
ڈاکٹر ارشد محمود ملک نے اپنے خطاب میں مجید امجد کی شاعری کو مقامی دانش کے تناظر میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجید امجد کی شاعری ہماری مقامی ثقافت اور دانش کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ان کے اشعار میں ایسی گہرائی اور فکر ملتی ہے جو ہمیں ہمارے معاشرتی مسائل کا ادراک کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مجید امجد نے اپنے کلام میں فطرت کو ایک علامتی پیرائے میں پیش کیا جس کے ذریعے انہوں نے معاشرتی ناہمواریوں، طبقاتی فرق اور انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں کو بخوبی بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُن کی شاعری میں یہ گہرائی اور بصیرت ہمیں اپنے اردگرد کی زندگی کو بہتر انداز میں سمجھنے اور معاشرتی رویوں کو بہتر بنانے کی تحریک دیتی ہے۔ ڈاکٹر ارشد محمود ملک نے مزید کہا کہ مجید امجد کا کلام مقامی دانش کا ایک عمدہ نمونہ ہے جس میں انسانی جذبات و احساسات کو فطرت کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا گیا ہے اور ان کی شاعری کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنی مقامی زبان اور تہذیب کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کرتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالعزیز نے مجید امجد کی شخصیت اور ان کے ادبی مقام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مجید امجد ہماری ادبی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جہاں مقامی مسائل اور دانش کا اظہار ہوتا ہے وہیں ان کے کلام میں عالمی سطح کی فکر بھی جھلکتی ہے۔ ان کا کلام ایک ایسی دنیا کی عکاسی کرتا ہے جہاں انسانی جذبات، احساسات اور مسائل عالمی پیمانے پر ایک جیسے ہیں اور یہی وہ عنصر ہے جو مجید امجد کی شاعری کو ایک بین الاقوامی حیثیت عطا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجید امجد اپنے کلام میں ایک ایسے معاشرے کی تصویر کشی کی ہے جو اپنے مسائل اور چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے اور ان مسائل کا حل مقامی دانش کے ذریعے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر فرحت نسیم نے کہا کہ مجید امجد کا شمار اردو کے ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف اپنے معاشرتی اور تہذیبی مسائل کو پیش کیا بلکہ ان کے کلام میں ایک اصلاحی پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے معاشرتی ناانصافیوں اور ناہمواریوں کی نشاندہی کی اور لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ ہمیں اپنے معاشرتی رویوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجید امجد نے اپنی شاعری کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ ایک شاعر کی سوچ محض اپنے مقامی ماحول تک محدود نہیں رہ سکتی، بلکہ وہ اپنی فکر کو عالمی پیمانے پر بھی پھیلا سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں ہمیں وہ گہرائی اور بصیرت ملتی ہے جو آج کے معاشرتی مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر عمران اظفر نے کہا کہ مجید امجد کی شاعری میں فطرت اور انسانیت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں مقامی دانش کو اس انداز میں پیش کیا کہ وہ نہ صرف ہمارے معاشرتی مسائل کا احاطہ کرتی ہے بلکہ ہمیں ایک نئے فکری زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجید امجد نے اپنی شاعری میں مقامی تہذیب اور ثقافت کو جس خوبصورتی سے پیش کیا ہے وہ ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔