33.2 C
Islamabad
ہفتہ, مئی 10, 2025
ہومزرعی خبریںویلیوایڈیشن اور جدید طریقہ کاشت کو اپناتے ہوئے ملکی سطح پر کھجور...

ویلیوایڈیشن اور جدید طریقہ کاشت کو اپناتے ہوئے ملکی سطح پر کھجور کی پیداوار کو بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کر کے زرعی معیشت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے، ڈاکٹر اقرار احمد

- Advertisement -

فیصل آباد۔ 14 اکتوبر (اے پی پی):جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خان نے کہا کہ پاکستان میں کھجور کا زیرکاشت رقبہ 91145ہیکٹر ہے جس میں سے پنجاب کا حصہ صرف 5781ہیکٹرپر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں کھجور کی پیداوار کے حساب سندھ سرفہرست،بلوچستان دوسرے نمبر پر آتا ہے،یہی نہیں بلکہ ہارٹیکلچر میں کھجور کو ایک خاص مقام حاصل ہے اورپاکستان کا شماراگرچہ دنیا کے بڑے کھجور پیدا کرنیوالے ممالک میں ہوتا ہے مگر ویلیوایڈیشن نہ ہونے کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ میں کھجور کی ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے اسلئے اگر جدید زرعی رحجانات اور ویلیوایڈیشن کو ملکی سطح پر فروغ دیا جائے تو نہ صرف کھجور کی پیداواریت میں خودکفالت حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کا زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹیکلچرل سائنسزکے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ویلیوایڈیشن اور جدید طریقہ کاشت کو اپناتے ہوئے ملکی سطح پر کھجور کی پیداواریت کو بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ کر کے زرعی معیشت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں کھجور کی پیداوار تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ ٹن سالانہ ہے تاہم روایتی طریقوں کی وجہ سے ایکسپورٹ صرف چھوہارے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کو ویلیوایڈیشن، جدید ٹیکنالوجی اور پیسٹ مینجمنٹ سے روشناس کراتے ہوئے نہ صرف معیشت کو بہتر کیا جا سکتا ہے بلکہ پیداواریت میں اضافے اور فوڈ سیکورٹی کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کھجور کی بہتر اقسام کی کاشت کو فروغ دینے کیلئے ٹشوکلچر میں تحقیق و تدریس کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سطح پر کمرشل ٹشوکلچر کا نظام تشکیل دیا جائے۔

- Advertisement -

انہوں نے کہا کہ مصر، سعودی عرب، ایران، عراق کا شمار دنیا کے کھجور پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کھجور غذائیت کا منبع ہوتے ہوئے اپنے اندر پروٹین، چکنائی، نمکیات، نشاستہ اور حیاتین رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تین سو سے زائد کھجور کی اقسام پائی جاتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ مختلف عوامل کی وجہ سے یہ تعداد پچاس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جس کیلئے کمرشل ٹشوکلچر کو فروغ دیتے ہوئے نایاب ہونے والی اور پاکستان کے ماحول سے ہم آہنگ غیرملکی اقسام کی کاشت پر سائنسی بنیادوں پر کام کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

انہوں نے جامعہ کے ماہرین کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس دانش گاہ کی بدولت دیہی ترقی، پیداواریت میں اضافے اور فوڈ سیکورٹی جیسے چیلنجز سے نبردآزما ہوتے ہوئے زرعی ترقی کی بنیاد رکھی گئی ہے جس کے مفید نتائج حاصل ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے بنی نوع انسان پر ان گنت احسانات میں کھجور ایک بہت بڑی نعمت ہے جسے غذائیت اور ادویاتی نکتہ نظر سے انفرادی اہمیت حاصل ہے۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=512230

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں