سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود 2.5 فیصد کمی کے بعدشرح سود 17.5 فیصد سے کم ہوکر 15 فیصد ہوگئی

235
سٹیٹ بینک

اسلام آباد۔4نومبر (اے پی پی):سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں 2.5 فیصد کمی کے بعد شرح سود 17.5 فیصد سے کم ہوکر 15 فیصد ہوگئی ہے۔سٹیٹ بینک کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پچھلے ایم پی ایس اجلاس کے بعد مہنگائی توقع سے زیادہ تیزی سے کم ہوئی ہے اور اکتوبر میں اپنے وسط مدتی ہدف کے قریب پہنچ گئی، سخت زری پالیسی موقف مہنگائی میں کمی کے رجحان کو برقرار رکھنے میں بدستور کردار ادا کررہا ہے،غذائی مہنگائی میں تیزی سے کمی، تیل کی سازگار عالمی قیمتوں اور گیس ٹیرف اور پی ڈی ایل ریٹس میں متوقع ردوبدل کی عدم موجودگی نے ارزانی کی رفتار بڑھا دی ،زری پالیسی موقف مہنگائی کو 7.5 فیصد ہدف کی حدود میں رکھتے ہوئے پائیدار بنیادوں پرقیمتوں کے استحکام کا مقصد حاصل کرنے کے لیے مناسب ہے۔

اعلامیہ کے مطابق زری پالیسی موقف سے معاشی استحکام کو تقویت ملے گی اور پائیدار بنیاد پر معاشی نمو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مہنگائی توقع سے زیادہ تیزی سے کم ہوئی ہے اور اکتوبر میں اپنے وسط مدتی ہدف کے قریب پہنچ گئی ہے۔کمیٹی کا تخمینہ تھا کہ سخت زری پالیسی موقف مہنگائی میں کمی کے رجحان کو برقرار رکھنے میں بدستور کردار ادا کررہا ہے۔ مزید برآں، غذائی مہنگائی میں تیزی سے کمی، تیل کی سازگار عالمی قیمتوں اور گیس ٹیرف اور پی ڈی ایل کی شرحوں میں متوقع ردوبدل کی عدم موجودگی نے حالیہ مہینوں میں ارزانی (disinflation)کی رفتار بڑھا دی ہے۔

ان عوامل سے منسلک اندرونی خطرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایم پی سی نے تخمینہ لگایا کہ مختصر مدتی مہنگائی میں، ہدفی حدود کے اندر مستحکم ہونے سے قبل ، اتار چڑھائو ا ٓسکتا ہے۔ایم پی سی نے اپنے گذشتہ اجلاس سے اب تک ہونے والی اہم پیش رفتوں کا ذکر کیاجن کے معاشی منظرنامے کے لیے مضمرات ہوسکتے ہیں۔اول، آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کے نئے ای ایف ایف پروگرام کی منظوری دی جس سے غیریقینی کیفیت کم ہوئی ہے اور مجوزہ بیرونی رقوم کی آمد کے امکانات بہتر ہوئے ہیں۔ دوم، اکتوبر میں کیے گئے سرویز سے صارفین اور کاروباری اداروں دونوں کے اعتماد میں بہتری اور مہنگائی کی توقعات میں کمی ظاہر ہوئی۔

سوم، حکومتی تمسکات پر ثانوی مارکیٹ کی یافت اور کائبور دونوں میں نمایاں طور پر کمی آئی ہے۔ چہارم، مالی سال 25ء کے پہلے چار ماہ کے دوران ٹیکس وصولی ہدف سے کم رہی۔ آخر میں، اگرچہ بڑھتی ہوئی بین الاقوامی سیاسی کشیدگی کی بناء پر تیل کی عالمی قیمتوں میں کافی اتار چڑھائو نظر آیا ہے تاہم دھاتوں اور زرعی مصنوعات کی قیمتیں نمایاں طور پر بڑھی ہیں۔ان حالات کے پیش نظر کمیٹی کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ موجودہ زری پالیسی موقف مہنگائی کو 5-7 فیصد ہدف کی حدود میں رکھتے ہوئے پائیدار بنیادوں پرقیمتوں کے استحکام کا مقصد حاصل کرنے کے لیے مناسب ہے۔

اس سے معاشی استحکام کو تقویت ملے گی اور پائیدار بنیاد پر معاشی نمو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔تازہ ترین اعدادوشمار سے معاشی سرگرمی میں بتدریج اضافے کی عکاسی ہوئی۔ خریف کی اہم فصلوں کے ابتدائی تخمینے زری پالیسی کمیٹی کی پچھلی توقعات کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوئے۔ چاول اور گنے کی پیداوار کے ہدف سے بلند تخمینوں نے مکئی اور کپاس کی پیداوار میں تخمین شدہ کمی کے اثرات کو مکمل طور پر زائل کر دیا ہے۔ مزید برآں، صنعتی سرگرمی کی رفتار میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

خصوصاً، جولائی تا اگست 2024ء میں ٹیکسٹائل، غذا، گاڑیوں اور منسلک صنعتوں میں خاصی نمو ہوئی ہے، اور آئندہ مہینوں کے دوران مذکورہ صنعتوں کی نمو کی رفتار میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ اس تجزیے کو خام مال اور مشینری کی درآمدات میں اضافے، کاروباری اعتماد میں بہتری اور مالی حالات سازگار ہونے سے تقویت ملتی ہے۔ اجناس کے پیداواری شعبوں کے بہتر امکانات اور مہنگائی کے کم ہوتے دبائو سے بھی خدمات کے شعبے کو مدد ملنے کی توقع ہے۔ بحیثیت مجموعی، زری پالیسی کمیٹی کو توقع ہے کہ مالی سال 25ء میں حقیقی جی ڈی پی کی نمو ابتدائی تخمینے سے بہتر اور 2.5 تا 3.5 فیصد کی حد میں رہے گی۔

ستمبر 2024ء میں کرنٹ اکائونٹ مسلسل دوسرے ماہ سرپلس میں رہا، اس طرح مالی سال 25ء کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی خسارہ کم ہو کر 98 ملین ڈالر رہ گیا۔ درآمدات میں خاصے اضافے کے باوجود کارکنوں کی بھاری ترسیلات اور زائد برآمدات نے خسارہ محدود رکھنے میں مدد دی۔ خسارے کے پہلو سے ستمبر میں بیرونی سرمایہ کاری میں معمولی سا اضافہ ہوا۔ اس پیشرفت کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پہلی قسط کی وصولی سے سٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ ذخائر کو مزید اضافے سے 25 اکتوبر 2024ء کو 11.2 ارب ڈالر تک پہنچنے میں مدد ملی۔ معاشی سرگرمیوں میں اضافے سے مستقبل میں درآمدات مزید بڑھنے کی توقع ہے۔

تاہم زری پالیسی کمیٹی نے تخمینہ لگایا کہ کارکنوں کی ترسیلاتِ زر اور برآمدات کا نسبتاً بلند رہنا کرنٹ اکائونٹ خسارے کو پیشگوئی کے مطابق جی ڈی پی کے صفر سے ایک فیصد تک کی حد میں رکھنے میں مدد دے گا۔ یہ اور اس کے علاوہ منصوبے کے مطابق سرکاری رقوم کی آمد سے سٹیٹ بینک کے زر مبادلہ ذخائر جون 2025ء تک لگ بھگ 13 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔مالی سال 25ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران مالیاتی توازن اور بنیادی توازن میں جی ڈی پی کا بالترتیب 1.4 فیصد اور 2.4 فیصد سرپلس آیا۔ دراصل اس بہتری کی وضاحت اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ بلند منافع سے ہوتی ہے جس سے نان ٹیکس محاصل خاصے بڑھ گئے۔

اس کے برعکس ایف بی آر کی ٹیکس وصولی جولائی تا اکتوبر کے دوران ہدف سے کم رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مالی سال 25ء کا ٹیکس ہدف پورا کرنے کے لیے مستقبل میں نمایاں طور پر بلند نمو درکار ہوگی۔ اخراجات کے پہلو سے پست سودی ادائیگیاں خاصی بڑی مالیاتی گنجائش پیدا کر رہی ہے جس سے مجموعی مالیاتی خسارے پر نظر رکھنے میں مدد ملے گی۔ تاہم ہدف کے مطابق بنیادی توازن حاصل کرنا دشوار امر ہوگا۔

زری پالیسی کمیٹی نے میکرو اکنامک استحکام کو سہارا دینے کے لیے مالیاتی یکجائی کے تسلسل کی اہمیت پر زور دیا اور ایسی مالیاتی اصلاحات کی ضرورت کا اعادہ کیا جن میں ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے اور سر کاری شعبے کے اداروں کا خسارہ کم کرنے پر توجہ دی گئی ہو۔زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے 25 اکتوبر تک زر وسیع (ایم 2) کی نمو قدرے بڑھ کر 15.2 فیصد سال بسال ہوگئی، نیز اس کی ہیئت ترکیبی میں نمایاں تبدیلیاں آئیں ۔ بالخصوص، بینکاری نظام سے خالص اعانت میزانیہ میں نمایاں کمی واقع ہوئی جبکہ بینکوں کی جانب سے غیر سرکاری شعبے کے قرضوں میں اضافہ ہوگیا۔

اسٹیٹ بینک کے منافع کی وصولی کے بعد حکومت نے بینکوں سے لیے گئے قرضوں میں کمی کی اور اپنے واجب الادا قرضوں کے تمسکات کی باز خرید (بائی بیک) کے آپریشنز بھی شروع کیے۔ اس سے بینکوں کے لیے نجی شعبے کو قرض دینے کی اضافی گنجائش پیدا ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک کے سیالیت کے ادخال میں نمایاں کمی آئی جس کی عکاسی او ایم اوز کے بقایا اسٹاک میں کمی سے ہوتی ہے۔ واجبات کے لحاظ سے ، ڈپازٹس ایم ٹوکی نمو کا اہم محرک بنے رہے۔ زری پالیسی کمیٹی کے مطابق مستقبل میں مالی حالات میں نرمی اور اقتصادی سرگرمیوں میں متوقع اضافے سے نجی شعبے کے قرضوں کی طلب میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

مزید برآں آئندہ ہفتوں کے دوران، بینک بھی ایڈوانسز میں اضافہ کر سکتے ہیں تاکہ ایڈوانس ٹوڈیازٹ ریشو (اے ڈی آر) کی حدوں کی عدم تعمیل پر اضافی ٹیکس سے بچ سکیں،زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے مہنگائی میں نمایاں کمی واقع ہوئی اور یہ وسط مدتی ہدف کی حد کے قریب پہنچ گئی۔

عمومی مہنگائی )سال بہ سال(گھٹ کر کر ستمبر میں 6.9 فیصد اور اکتوبر میں 7.2 فیصد ہوگئی جو اگست 2024ءمیں 9.6 فیصد تھی۔ طلب میں کمی کے علاوہ اہم غذائی اجناس کی ملکی رسد میں بہتری، عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی اور سازگار اساسی اثر نے حالیہ مہینوں میں ارزانی کی رفتار کو تیز کر دیا۔ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ ان عوامل کے جاری رہنے سے آئندہ چند مہینوں میں مہنگائی میں مزید کمی آسکتی ہے۔ مزید برآں، مہنگائی کے مضمر دبائو میں کمی جاری رہی، جیسا کہ قوزی گرانی (core inflation)میں نسبتاً بتدریج کمی اور مہنگائی کی توقعات میں اعتدال سے ظاہر ہوتا ہے۔

ان پیش رفتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زری پالیسی کمیٹی اب یہ توقع کرتی ہے کہ مالی سال 25ء کے لیے اوسط مہنگائی اس کی پچھلی پیش گوئی کی حد 11.5 سے 13.5 فیصد سے نمایاں طور پر کم رہے گی۔ کمیٹی کا یہ تجزیہ بھی تھا کہ یہ منظر نامہ مشرق وسطیٰ کے تنازع میں کشیدگی، غذائی مہنگائی کے دبائو کے دوبارہ ابھرنے، سرکاری قیمتوں میں ایڈہاک ردوبدل اور محصولات کی وصولی میں کمی کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی ٹیکس اقدامات کے نفاذ جیسے خطرات سے مشروط ہے۔