22.5 C
Islamabad
بدھ, ستمبر 3, 2025
ہومقومی خبریںمدارس کی رجسٹریشن کے ساتھ ہم مدارس کی آزادی اور حریت کو...

مدارس کی رجسٹریشن کے ساتھ ہم مدارس کی آزادی اور حریت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں، باقاعدہ ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم بنایا جائے تودینی مدارس کے ساتھ مذاکرات کاراستہ بھی بن جائے گا، مولانا فضل الرحمان

- Advertisement -

اسلام آباد۔17دسمبر (اے پی پی):جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کے ساتھ ہم مدارس کی آزادی اور حریت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں، باقاعدہ ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم بنایا جائے تودینی مدارس کے ساتھ مذاکرات کاراستہ بھی بن جائے گا، مدارس کے نظام کو خراب نہ کیا جائے ۔ وہ منگل کو ایوان میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کر رہے تھے ۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے 26 ویں آئینی ترامیم اتفاق رائے سے منظور کیں، ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک مذاکرات کا عمل جاری رہا جس میں تمام سٹیک ہولڈرز آن بورڈ تھے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں بات چیت ہوتی ہے فریقین دلائل سے ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں اور مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ اسی حوالے سے دینی مدارس بارے ایک بل بھی تھا ۔2004 میں حکومت اور دینی مدارس کے مابین مذاکرات ہوئے ، حکومت نے مدارس کے حوالے سے تین سوالات اٹھائے تھے ۔

- Advertisement -

دینی مدارس کا مالیات نظام کیا ہے ،دینی مدارس کا نصاب تعلیم کیا ہے اور دینی مدارس کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہوتا ہے ،ان تینوں سوالات پر مذاکرات ہونے کے بعد حکومت مطمئن ہوگئی تو ایک قانون سازی ہو ئی جس میں کہا گیا کہ دینی مدارس سے اس حوالے سے محتاط رہیں گے کہ کسی قسم کی فرقہ وارانہ تعلیم، انتہا پسندی پر آمادہ کرنے کا مواد نہیں ہونا چاہیے ، تاہم علمی بحث اس سےمستثنیٰ ہوگی ۔ بعد میں کچھ تحفظا ت سامنے آئے تو 2010 میں دوبارہ معاہدہ طے پا گیا ۔

18 ویں ترمیم پاس ہوئی تو خود حکومت نے یہ سوال اٹھایا کہ مدارس 1860 ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں اب چونکہ وہ صوبائی معاملہ ہے ،سوسائٹی ایکٹ صنعت و حرفت کے دائرہ کار میں آتا ہے پھر کہا گیا کہ آپ وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہوجائیں ۔اس پر بات چیت ہوتی رہی لیکن وہ ایکٹ نہیں بنا محض ایک معاہدہ تھا جو تین باتوں پر مشتمل تھا ، پہلی بات دینی مدارس جن کی رجسٹریشن ہوچکی ہے وہ برقرار رہیں گے، نئے مدارس کی رجسٹریشن پر حکومت تعاون کرے گی، دینی مدارس کے بینک اکائونٹس کھول دیئے جائیں گے اور غیر ملکی طلبا جن پر پابندی ہے وہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، ان کو 9 سال کے ویزے دیئے جائیں گے ۔ ایجوکیشن بورڈ بنا، 12 مراکز بنائے گئے جس کا معاہدے سے تعلق نہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ 2010 معاہدہ ٹوٹ چکا ہے ، نہ مدارس کی رجسٹریشن ہوسکی نہ اکائونٹس کھولے اور نہ ہی طلبا کو ویزے دیئے گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ 5 مدارس بورڈ تھے جو بعد ازاں 25 بنا دیئے گئے ،اس کا حکومت مدارس تنظیمات معاہدے سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ پی ڈی ایم حکومت میں وزیراعظم سے بات کی تھی کہ معاملہ الجھا ہوا ہے اسے حل کریں ، انہوں نے حامی بھری ،بات چیت ہوئی، تنظیمات مدارس کے قائدین کو بلایا گیا ،مشاورت کے ساتھ اصول طے ہوئے، ہم نے اپنے موقف میں لچک دکھائی، اسی معاہدے کے مطابق ڈرافٹ اس ایوان میں پیش ہوا

، پہلی خواندگی ہوئی دوسری خواندگی شق وار ہورہی تھی تو اس میں تبدیلیاں لائی گئیں تو ہم نے کہا کہ ہم اس قانون سازی کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ اب اس ایوان کے اندر 26 ویں ترمیم پر بات ہورہی تھی تو ہم نے کہا کہ اس بل کو بھی دوبارہ زندہ کریں ، بل جو ایوان سے پاس ہوا ہے اس میں وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کا ذکر ہی نہیں تھا۔ 20 ،21 اکتوبر کی صبح تک قانون قومی اسمبلی اور سینٹ سے پاس ہوا تو اسے ایوان صدر بھجوایا گیا۔ دونوں ایوان سے بل آتا ہے جہاں آخر میں پاس ہوتا ہے تو وہ ایوان صدر جاتا ہے اور سپیکر کے پاس اعتراض آیا جس کی تصیحح کی گئی ۔

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں