انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز میں ویبنار کا انعقاد، سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اور چیئرمین آئی ایس ایس آئی خالد محمود کی شرکت

127
ISSI
ISSI

اسلام آباد۔14جنوری (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں سینٹر فار افغانستان مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ نے مڈل ایسٹ مانیٹر کے تعاون سے ایک ویبنار کا انعقاد کیا جس کا عنوان ”فلسطین کی صورتحال بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر کیسے اثر انداز ہورہی ہے“ تھا ۔ ویبنار کی نظامت آمنہ خان نے کی۔ ویبنار کے مقررین میں سابق سیکرٹری خارجہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی سہیل محمود، چیئرمین آئی ایس ایس آئی خالد محمود، ڈائریکٹر مڈل ایسٹ مانیٹر ڈاکٹر دائود عبداللہ، سینٹر فار سوشل جسٹس اینڈ چینج یونیورسٹی آف ایسٹ لندن کے ڈاکٹر عفاف جبیری، پاکستان میں جنوبی افریقہ کے سابق سفیر متھوزیلی مادیکیزا اور دیگر شامل تھے۔

سہیل محمود نے فلسطین پر سات دہائیوں سے جاری غیر قانونی قبضے، وحشیانہ جبر اور حق خود ارادیت سے انکار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کسی خلا ءمیں نہیں ہوئے ،یہ فلسطینیوں کی بے دخلی کی ایک طویل تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہوں نے عرب لیگ، او آئی سی اور عالمی برادری سے فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی محفوظ اور پائیدار فراہمی اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے مذاکرات شروع کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر فلسطینیوں کے لئے انصاف ناگزیر ہے۔

آمنہ خان نے 1948 سے اسرائیل کے منظم قبضے کی وجہ سے پیدا ہونے والے فلسطینی پناہ گزینوں کے بحران پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے غزہ میں جاری نسل کشی کی مذمت کی جس نے لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا ہے۔ ڈاکٹر عفاف جبیری نے 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کو ”نقبہ“ کے تسلسل کے طور پر اجاگر کیا جو فلسطینیوں کی آزادی کے انکار اور ان کی جدوجہد کی بڑھتی ہوئی عالمی شناخت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر دائود عبداللہ نے مسئلہ فلسطین کے دوبارہ ابھرنے کا ذکر کیا جو پہلے یوکرین پر عالمی توجہ کے زیر سایہ تھا۔ انہوں نے اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنے پر بڑھتی ہوئی بحث کو اجاگر کیا اور اسرائیل کے لئے تنہائی میں اضافہ اور فلسطینی کاز کے لیے نئی رفتار کی پیش گوئی کی۔

سابق سفیر متھوزیلی مادیکیزا نے اس بات پر زور دیا کہ امن کا انحصار انسانی حقوق اور تحفظ کو برقرار رکھنے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ کس طرح فلسطینی جدوجہد نے عالمی سطح پر ان کی آواز کو بلند کیا ہے، اقوام متحدہ کو تبدیل اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو متحد کیا ہے۔ ڈاکٹر احمد کورو اوغلو نے غزہ میں ہونے والی ناانصافیوں کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے والوں کی آواز بلند کرنے اور عالمی رائے عامہ بنانے میں غزہ ٹریبونل انیشی ایٹو کے کردار پر روشنی ڈالی۔

سفیر خالد محمود نے عالمی بحرانوں کا ذکر کیا جن میں تنازعات، دہشت گردی، اسلامو فوبیا اور طاقت کی رقابتیں شامل ہیں۔ انہوں نے غزہ کے مظالم کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عرب دنیا کے ردعمل کو ناکافی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بالآخر فلسطینی اپنے حق خودارادیت کے ناقابل تنسیخ حقوق کو حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔