اسلام آباد۔5مئی (اے پی پی):نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ کشمیر سے فلسطین تک دیرینہ حل طلب تنازعات علاقائی اور بین الاقوامی امن وسلامتی کے لیے مسلسل خطرہ ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات کے اثرات نہ صرف سرحدوں سے باہر بلکہ نسلوں تک بھی محسوس کیے جا رہے ہیں، بین الاقوامی برادری کا ایک ذمہ دار رکن ہونے کے ناطے پاکستان علاقائی امن اور استحکام کے لیے پرعزم ہے، کشیدگی کو کم کرنے کی تمام کوششوں کی حمایت کریں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کے زیر اہتمام چوتھے سالانہ ریجنل ڈائیلاگ 2025 میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا درحقیقت ہنگامہ خیز دور سے گزر رہی ہے، ہمیں متعدد باہم جڑے ہوئے بحرانوں کا سامنا ہے جو بین الاقوامی امن و سلامتی، اقتصادی استحکام اور پائیدار ترقی کے لیے خطرہ ہیں۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ تنازعات اور مسلسل غیر ملکی قبضے نے آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچانے اور خود ارادیت کی ضمانت دینے کے اقوام متحدہ کے وعدے کی نفی کی ہے۔
سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام میں ساختی خامیوں کو دور کرنے میں ہماری ناکامی عالمی عدم مساوات اور غربت کو بڑھا رہی ہے، نفرت اور امتیازی سلوک زینو فوبیا اور اسلامو فوبیا کی شکل میں بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارا خطہ ایک بار پھر ایک اور تنازعہ کے دہانے پر کھڑا ہے، گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بے بنیاد الزامات کے ساتھ ساتھ بھارت کی طرف سے یکطرفہ، سیاسی طور پر محرک اور انتہائی اشتعال انگیز اقدامات علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں، علاقائی کشیدگی کو بڑھانے کی ایک منظم اور سوچی سمجھی کوشش کی جا رہی ہے،
ایک مانوس انداز پر عمل کرتے ہوئے بغیر ثبوت کے پاکستان کے خلاف سطحی الزامات، اشتعال انگیز بیان بازی اور جنگی جنون کو ہوا دے کر اسے جارحیت اور یکطرفہ کارروائیوں کے بہانے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کے پیچھے واحد مقصد بھارت کے اندرونی چیلنجز، ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی، بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانا اور ملکی سطح پر سیاسی مقاصد حاصل کرنا ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ اس کے ایسے نتائج برآمد ہوتے ہیں جو بھارت کی سرحدوں سے بہت آگے تک پھیلے ہوئے ہیں، علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو انتخابی فوائد پر قربان نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک خطرناک سیاسی جوا ہے جس نے خطے میں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں داو پر لگا دی ہیں۔ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں پاکستان اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا پر عزم طریقے سے دفاع کرے گا جیسا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 میں درج ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان موجودہ صورتحال کے پس منظر میں کشمیریوں کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اور اسلاموفوبک بیانیہ پر بھی فکر مند ہے اور یہ سلسلہ فوراً ختم ہونا چاہیے۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ اس پس منظر میں سندھ طاس معاہدے کو روکنے کا بھارت کا غیر قانونی اور یکطرفہ فیصلہ دنیا کے لیے تشویشناک ہونا چاہیے، یہ معاہدہ اس طرح کے یکطرفہ اقدامات کی کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتا ہے، بھارت کی کارروائی علاقائی استحکام کے بنیادی ستون کو نقصان پہنچاتی ہے جس کے اہم مشترکہ وسائل کے پرامن انتظام پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے 24 اپریل کو یہ واضح کردیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان کے پانی کے بہاو کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کسی بھی کوشش کو ”جنگ کا ایک عمل “ تصور کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے، ایک ایسے وقت میں جب خطے کو تعاون اور تحمل کی ضرورت ہے، کوئی بھی مہم جوئی مزید عدم استحکام کو ہوا دے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جموں و کشمیر کا حل طلب تنازعہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازعہ کے منصفانہ، دیرپا اور پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں نئے سرے سے اور مربوط کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے خطے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان کا حل کثیرالجہتی کے نئے سہارے کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کی ہمہ گیر اور مستقل پابندی بشمول لوگوں کے خود ارادیت، طاقت کا استعمال نہ کرنا، تمام ریاستوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام، ان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور تنازعات کے پرامن حل کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاکھوں فلسطینی بے مثال مصائب برداشت کر رہے ہیں، ہزاروں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، بہت سے لوگ زخمی ہوئے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہیں جبکہ جان بوجھ کر لاکھوں لوگوں کو انسانی امداد سے انکار کیا جا رہا ہے اور انسانی ہمدردی کے کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے لیے ہمیں یک آواز ہوکر بولنا چاہیے، خطہ میں پائیدار امن فلسطینیوں کو 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک قابل عمل، محفوظ، متصل اور خودمختار ریاست فلسطین کے لیے اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے استعمال کی اجازت دیے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق القدس الشریف کو اس کا دارالحکومت بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ غربت اور بڑھتی ہوئی عالمی عدم مساوات سے اس وقت تک نمٹا نہیں جا سکتا جب تک کہ ہم بین الاقوامی اقتصادی تعلقات میں عدم مساوات پر توجہ نہ دیں، بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے میں اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔ بین الاقوامی تعاون کے بغیر نہ تو ایس ڈی جیز اور نہ ہی موسمیاتی اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں، مناسب رعایتی مالیات کو یقینی بنا کر لیکویڈیٹی کے بحران اور قرضوں کی پریشانی میں پھنسے ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجیز خاص طور پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز تک رسائی مساوی اور غیر امتیازی ہونی چاہیے۔
سب سے زیادہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں سے ایک ہونے کے ناطے پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی اہم ضرورت کو تسلیم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی ماحولیاتی کارروائی اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو اپنے موسمیاتی مالیاتی وعدوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے اور بے پناہ اقتصادی صلاحیت رکھتا ہے، یہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے، ہم اپنے لوگوں اور خطے کی خوشحالی اور بہتری کے لیے ان موروثی فوائد سے فائدہ اٹھانے کے لیے پرعزم ہیں، ہم نے جیو اکنامکس کو اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اپنی مصروفیت کے بنیادی ستونوں میں سے ایک کے طور پر ترجیح دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم علاقائی روابط کو بڑھانے اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے دو طرفہ اور کثیر جہتی ترقیاتی شراکت داری کو بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں، ان اہداف کے حصول کے لیے ہم خطے اور اس سے باہر امن کے خواہشمند ہیں، انہوں نے توقع ظاہر کی کہ عالمی برادری ان اہداف کو حاصل کرنے میں ہماری مدد کرے گی اور خطے میں کسی بھی خرابی کو ہمارے امن اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بننے سے روکا جائے گا۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=592781