انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز میں”پاکستان اور خطہ: علاقائی روابط کو بڑھانا، دہشت گردی سے نمٹنا اور انسداد دہشت گردی“ کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس

122

اسلام آباد۔9مئی (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں سینٹر فار افغانستان، مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ نے بین الاقوامی ادارہ فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ کے تعاون سے ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا ۔ کانفرنس کا عنوان ”پاکستان اور خطہ: علاقائی روابط کو بڑھانا، دہشت گردی سے نمٹنا اور انسداد دہشت گردی“ تھا ۔ کانفرنس کے افتتاحی سیشن کے مہمان خصوصی مشاہد حسین سید تھے۔ پہلا ورکنگ سیشن بعنوان ”پاکستان۔افغانستان تعلقات: چیلنجز اور مواقع“ تھا۔ سیشن کے مقررین میں سفیر قاضی ہمایوں، حمید حکیمی، سفیر ایاز وزیر، زلمی نشاط، صحافی طاہر خان اور سابق افغان وزیر مزمل شنواری شامل تھے۔

مقررین نے پاکستان افغانستان تعلقات میں اہم چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا جن میں ٹی ٹی پی کا خطرہ، بھارت کا کردار، سرحد پار دہشت گردی پر طالبان کا موقف اور مہاجرین کی واپسی شامل ہیں۔ انہوں نے عملی، عوام پر مرکوز مشغولیت اور ممالک کے درمیان عوام کی سطح پر تعلقات پر زور دیا۔ کچھ لوگوں نے تنازعات کے پرامن حل، بہتر تجارت اور مشترکہ وسائل کے استعمال کو قابل بنانے کے لئے طالبان کو باضابطہ تسلیم کرنے پر زور دیا۔ ٹی ٹی پی کے چیلنج سے نمٹنے کے علاوہ جامع افغان حکومت کی ضرورت ہے ۔ تاپی اور کاسا۔1000 جیسے منصوبوں کو علاقائی رابطے کے اہم مواقع کے طور پر اجاگر کیا گیا اور دو طرفہ اقتصادی صلاحیت کو کھولنے کے لئے ایک جامع تجارتی معاہدے کی تجویز پیش کی گئی۔

دوسرے ورکنگ سیشن کا عنوان تھا ”علاقائی سلامتی اور انسداد دہشت گردی: ارتقاء کے خطرات اور جوابی حکمت عملی“ تھا جس کی نظامت سابق سفیر سیما الٰہی بلوچ نے کی۔ سیشن کے مقررین میں ڈاکٹر رستم عزیزی، ڈاکٹر فواد ایزدی، سفیر رفعت مسعود، ڈاکٹر مرات اسلان، حسن اور ذیشان صلاح الدین شامل تھے۔ مقررین نے بڑھتے ہوئے سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون کی فوری ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ طالبان کو اب وسطی ایشیا کے لئے براہ راست خطرہ کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، داعش جیسے گروہ مقامی بھرتیوں کے ذریعے بڑھتے ہوئے خطرات کو جنم دیتے ہیں۔

انہوں نے علاقائی روابط اور استحکام کے ساتھ ساتھ روایتی اور غیر روایتی سکیورٹی خطرات سے نمٹنے، اندرونی ہم آہنگی کو مضبوط بنانے اور پڑوسیوں کے ساتھ عملی طور پر منسلک ہونے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی انضمام کے لئے جرات مندانہ قیادت، باہمی اعتماد اور امن، ترقی اور علاقائی ملکیت کے لئے طویل مدتی عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیسرا ورکنگ سیشن قائداعظم یونیورسٹی کے ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ ملک نے ماڈریٹ کیا، جس میں”غیر روایتی سیکورٹی خطرات سے نمٹنے: موسمیاتی تبدیلی اور انسانی چیلنجز“ پر توجہ مرکوز کی گئی۔

مقررین میں نے غیر روایتی سیکورٹی خطرات خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی فوری ضرورت پر زور دیا جو جنوبی ایشیا میں سیلاب، سموگ کا باعث ہے۔ انہوں نے عالمی استحکام کو یقینی بنانے کے لئے بین الاقوامی قانون کی پاسداری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ بحث میں ڈیجیٹلائزیشن، آبادیاتی تبدیلیوں اور بنیاد پرستی پر سیاسی تاریخ کے اثرات کا بھی احاطہ کیا گیا۔

چیئرمین آئی ایس ایس آئی خالد محمود، نے غیر روایتی خطرات میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے خطے کے اہم اور پیچیدہ چیلنجوں پر گفتگو کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی کانفرنس ایک نازک موڑ پر منعقد کی گئی، خاص طور پر جب کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی خودمختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی ہے۔ کانفرنس میں سکالرز، پریکٹیشنرز، تھنک ٹینک کے ماہرین، میڈیا کے اراکین اور یونیورسٹی کے طلباءنے شرکت کی۔