اسلام آباد۔16جون (اے پی پی):قومی اسمبلی میں پیر کو بجٹ پر بحث کا دوبارہ آغاز ہوا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین نے دودھ اور غذائی اشیاء پر ٹیکس عائد نہ کرنے اور صحت و تعلیم کیلئے زیادہ فنڈز مختص کرنے کی تجاویز دیں، بعض اراکین نے سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کو واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔ پیر کو قومی اسمبلی میں بجٹ پرجاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے آسیہ اسحاق نے کہاکہ افراط زرمیں کمی ہوئی ہے، پوری قوم یک زبان ہو کر حکومت کے ساتھ کھڑی ہے، بجٹ میں تنخواہ دارطبقہ کو ریلیف دیا گیا ہے، جب آمدنی کم ہو، آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام ہوں اورکشیدگی کاماحول ہو تو ترجیحات کا تعین ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ 45 فیصد لوگ خط غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، شوگر میں پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے، کینسرکے مریضوں کی شرح زیادہ ہے، گلوبل جینڈرگیپ میں پاکستان 148 ویں نمبر اور خواتین کی اقتصادی شمولیت میں حصہ کے عالمی رینکنگ میں 147 ویں نمبر پر ہے۔ انہوں نے کہاکہ دودھ اورغذائی اشیاء پر ٹیکس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سٹنٹنگ کا مسئلہ پاکستان میں موجود ہے، ڈیری کی صنعت سے مراعات نہیں ہٹانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ آسٹریلیا، چین اور دیگر ممالک کی طرح چینی کے استعمال کو کم کرنے کیلئے مشروبات پر ایس ایس بی ٹیکس عائدکرنا ضروری ہے۔
شیر افضل مروت نے بجٹ میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ بجٹ میں قرضوں کی واپسی کیلئے کوئی روڈ میپ نہیں ہے، بھارتی جارحیت اور ایران اسرائیل جنگ سے واضح ہو رہا ہے کہ اب جنگوں کا انحصار انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل محاذ پر ہو گا، ملک میں کوئی ڈیجیٹل ریگولیٹری اتھارٹی نہیں ہے، ملک میں زیادہ تر سافٹ وئیرز پائیریٹد ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کرپٹو کرنسی کیلئے اقدامات درست ہیں مگر اس حوالہ سے خاطرخواہ فنڈز مختص نہیں کئے گئے ہیں۔ ملک کو تعلیم کی ضرورت ہے، صحت اور تعلیم کیلئے بجٹ میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ ضم شدہ اضلاع کیلئے آئین اور وعدوں کے مطابق فنڈز فراہم کئے جائیں، بجٹ میں ضم شدہ اضلاع کیلئے فنڈز مختص نہیں کئے گئے۔ شیر افضل مروت نے کہاکہ برآمدات میں اضافہ کے بغیر بیرونی کھاتے درست نہیں ہو سکتے، ملک میں سرمایہ کاری کیلئے زیادہ سے زیادہ مراعات دینا چاہئے۔ اوورسیزپاکستانیوں کیلئے زیادہ مراعات ضروری ہے کیونکہ ترسیلات زرکی صورت وہ ہرسال ملکی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
مہیش کمار ملانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پاک افواج کو بھارت کے خلاف کامیابی پر مبارکباد دیتے ہیں،انہوں نے مودی کا ہندوتوا نظریہ دفن کردیا۔عاصم منیر حقیقی معنوں میں فیلڈ مارشل کے عہدے کے مستحق تھے۔انہوں نے دنیا میں دہشت گردی میں بھارت کے کردارپر پاکستان کی بھرپور سفارتکاری کی انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سکھر حیدرآباد موٹر وے کے لئے 30 ارب روپے رکھے جانے کا وعدہ کیاگیا تھا لیکن 15 ارب رکھے گئے ہیں۔سولر پر ٹیکس کی حمایت نہیں کرسکتے۔ معاون خصوصی مبارک زیب نے کہا کہ ہم بدامنی کی بات کرتے ہیں،ہمارے ساتھ روزانہ بم دھماکے اور راکٹ پھینکے جاتے ہیں، ایک ماہ میں میرے گھر پر دوسرا حملہ کیاگیا۔16 ماہ پہلے میرے بھائی ریحان زیب کو شہید کیاگیا لیکن قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ کی ترقی کے لئے جو خواب دیکھا تھا اس کو شرمندہ تعبیر بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اعلیٰ سطح کی ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے جو ریحان زیب کے قتل اور میرے گھر پر حملوں کی تحقیقات کرے تاکہ ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔ عاطف رانا نے بجٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہمارے دور میں ملک میں حالات بہتر تھے،ایف بی آر کو ٹیکس چوری پر گرفتاری کا اختیار واپس لیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ کی رکن قومی اسمبلی فرح خان نے کہا کہ ایک پنکھے اور ایک بلب کے حامل کنبے کے لیے بجلی کے ٹیکسوں میں رعایت دی جائے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے اور مالی لحاظ سے مستحکم بنانے کیلئے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ خواتین کے لئے ملازمتوں میں 15 سے 20 فیصد کوٹہ مقرر کیا جائے۔ ملک بھر میں ڈے کیئر سینٹر قائم کیے جائیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ ہائوس میں ڈے کیئر سینٹر کے قیام پر سپیکر قومی اسمبلی کے کردار کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے بجٹ میں اضافہ ایک احسن اقدام ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم نے اس پاکستان کو کیا دیا ہے۔ہمارے جو سپاہی وطن کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں ان کے لیے یہ بجٹ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی خواجہ شیراز محمود نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پوری قوم نے ہمارے ملک کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کا بھرپور انداز میں پورے اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ جواب دیا ہے۔اسرائیل نے ایران پر جو جارحیت کی ہے ہم اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایران کو سرخرو فرمائے۔اسرائیل کے حوالے سے ہم بابائے قوم کے اس موقف پر آج بھی کھڑے ہیں اور ہمیشہ کھڑے رہیں گے۔
بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس افسران کو پولیسنگ کا کردار نہیں دینا چاہئے۔بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے پاکستان کو اس حوالے سے موثر جواب دینا چاہیے کیونکہ پانی ہماری زندگی ہے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کا انحصار پانی پہ ہوگا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ میرے حلقے سے یورینیم، پٹرول اور گیس کے ذخائر پر رائلٹی دی جائے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی رمیش لال نے کہا کہ بجٹ میں اقلیتوں کیلئے کوئی سکیم نہیں رکھی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے پاس فنڈ نہیں ہیں تو ہمارے اویکیو ٹرسٹ پراپرٹیز کے 14 سے 15ارب روپے موجود ہیں اسی میں سے ہمیں فنڈز دے دیں تاکہ ہم اپنے گرجوں اور مندروں کی حالت کو بہتر بنا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب کے حساب سے 10 فیصد اضافہ بہت کم ہے اس میں اضافہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پوری قوم ایرانی بھائیوں کے ساتھ ہے۔ شہناز سلیم ملک نے کہاکہ بجٹ عوام دوست ہے اور اس میں قومی سلامتی اورمعیشت کو فروغ دینے کو ترجیح دی گئی ہے، مسلم لیگ ن کی حکومت پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنانے پرتوجہ دے رہی ہے، ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن میں اضافہ کر دیا گیا ہے، مہنگائی میں کمی سے بھی ملازمین کوفائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے کہاکہ فورٹ منرو میں پانی کی کمی ہے، علاقہ میں صاف پانی کا پائیدار بنیادوں پر انتظام کیا جائے۔ بلوچستان میں شاہراہوں کی تعمیرکیلئے فنڈز میں اضافہ خوش آئندہے۔ صاحبزادہ صبغت اللہ نے کہاکہ ماضی میں پیش کردہ بجٹ کے مقابلہ میں اس بار آئی ایم ایف کی ہدایات پربجٹ ترتیب دیا گیا ہے جوملک کی معاشی خودمختاری کیلئے باعث تشویش ہے۔انہوں نے کہاکہ زراعت،صنعت اور دیگرشعبوں کی کارگردگی میں تنزلی آ چکی ہے۔بیرونی قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کواین ایف سی ایوارڈ کے تحت اس کا حق ملنا چاہئے۔ ضم شدہ اضلاع میں 10 فیصد سیلز ٹیکس کے فیصلہ کوواپس لیا جائے، اگریہ فیصلہ واپس نہ لیاگیا توہم احتجاج کریں گے۔لوئیردیر، اپردیر اور چترال کے اہم منصوبے پی ایس ڈی پی سے نکالے گئے ہیں۔نبیل گبول نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ پی پی پی نے لیاری کیلئے میڈیکل کالج، یونیورسٹی اور کئی دیگراہم منصوبے دیئے ہیں، ہمارے صوبہ کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہو رہا ہے، پی ایس ڈی پی میں فنڈز کی تقسیم منصفانہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ بلاول بھٹوزرداری دنیا بھر میں پاکستان کا مقدمہ لڑرہے ہیں،پی پی پی نے ملکی سلامتی اوریکجہتی کیلئے پہلے بھی کردار ادا کیا تھا اور آج بھی کر رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ سندھ میں ہائوسنگ سکیم کیلئے وفاقی حکومت سے 36 ارب روپے کے فنڈز کامطالبہ کیا گیا مگراس کے برعکس صرف11.4ارب روپے کے فنڈز کی فراہمی کاوعدہ کیا گیا۔
حیدرآباد سکھر موٹروے 400 ارب روپے کامنصوبہ ہے اوربجٹ میں اس اہم منصوبہ کیلئے 15 ارب روپے کے فنڈز رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے ایف بی آر کو گرفتاریوں اوربینک اکائونٹس منجمدکرنے کے اختیارات دینے کی مخالفت کی اورکہاکہ اس سے کاروبارپرمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ سندھ ریونیوکے حوالہ سے بڑا صوبہ ہے مگراس صوبہ کوسب سے کم فنڈز مل رہے ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹرنیلسن عظیم نے کہاکہ بجٹ میں بہتری کی گنجائش موجودہوتی ہے جن حالات میں متوازن بجٹ دیا گیا ہے اس پروہ وزیر خزانہ اورحکومت کو مبارکباد دیتے ہیں،جنگ کے حالات میں یہ بجٹ دیا گیا ہے جس میں تمام طبقات کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ ن نے اتحادیوں سے مل کرپاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچاتے ہوئے معاشی طور پر مستحکم بنا دیا ہے، بھارت کی جانب سے پاکستان کوگرے لسٹ میں شامل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی ہے، ان دونوں اقدامات پر حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔انہوں نے کہاکہ جی ڈی پی 411 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، افراط زر میں کمی آ رہی ہے، اہم اقتصادی اشاریے بہترہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایک سیاسی لیڈرکی اپیلوں کے باوجود سمندر پار پاکستانیوں نے ریکارڈ ترسیلات زرکی صورت میں پاکستان اورحکومت پاکستان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے، خارجہ محاذ پر بھارت کی سفارتی تنہائی ہماری بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ بجٹ میں خواتین، نوجوانوں اورمعاشرے کے دیگرطبقات کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ میں اقلیتوں پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شاہد خٹک نے کہا کہ کسان و مزدور کے لئے کچھ نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین کے لئے بجٹ میں کچھ نہیں ہے۔ مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ سکھر حیدرآباد موٹر وے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، اس کے لئے مختص بجٹ بڑھایا جائے، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کٹوتی واپس لی جائے،سولر پینلز پر تجویز کردہ ٹیکس واپس لیاجائے۔ ایم کیو ایم کی رکن سبین غوری نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں،آئی ٹی کے شعبہ میں برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، براڈ بینڈ میں اضافہ کے لئے اس شعبہ میں ٹیکس عائد کرنے میں جلد بازی نہ کیا جائے۔
اپوزیشن رکن محمد شبیر علی قریشی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ایران اور فلسطین کی ہر ممکن مدد کرنی چاہئے، ہمارے دور میں 6 فیصد شرح نمو تھی اب 2 فیصد ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن محمد اقبال نے کہا کہ ونڈ اور ہائیڈل سستے بجلی پیدا کرنے کے ذرائع ہیں،ہمیں اس طرف جانا چاہیے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شفافیت نہیں اس کا تھرڈ پارٹی آڈٹ ہونا چاہئے۔ کراچی میں پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے، اے آئی کے ذریعے دنیا کو کنٹرول کیا جار ہا ہے۔ ہمیں کلاس ون سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ لوئیر دیر سے رکن قومی اسمبلی محمد بشیر خان نے کہاکہ آئی ایم ایف کے شرائط کے مطابق بجٹ دیا گیا ہے، بجٹ میں امیرطبقات کیلئے مراعات رکھی گئی ہے۔
بجٹ میں صحت کے شعبہ کیلئے 81روپے اورتعلیم کی مدمیں 131روپے فی کس رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اوورسیزپاکستانی ہماراقومی اثاثہ ہے، سعودی عرب اوردیگرعرب ممالک میں کام کرنے والے سفارت خانوں کوپاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کی ہدایات جاری کی جائے۔انہوں نے معیشت سے سودی نظام اورکرپشن کے خاتمہ کیلئے اقدامات کامطالبہ بھی کیا۔ڈاکٹر نثار احمد جٹ نے کہاکہ بجٹ معاشی پالیسیوں اوراقدامات کیلئے روڈمیپ ہوتاہے، بجٹ میں سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا دعوی بے بنیادہے، پورے پی ایس ڈی پی میں سیاحت کے حوالہ سے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
غذائی سلامتی اہم ایشوہے جس کیلئے بجٹ میں 3.250ملین روپے کے فنڈز ناکافی ہے،کسانوں کومشکلات کاسامناہے،گنا،گندم اور دیگر فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔پانی جینوئن ایشوہے، ہمارے گلیشیئرز زیادہ عرصہ تک ہماری ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔ ہمیں آبی ذخائرکی تعمیر پر توجہ دینا ہو گی۔ انہوں نے سولر پینلز پر ٹیکس ختم کرنے اورٹیکسٹائل کی صنعت کیلئے بجلی کی قیمتوں میں کمی کامطالبہ کیا۔