برسلز۔23جون (اے پی پی):بیلجیئم، لکسمبرگ اور یورپی یونین کے لئے پاکستان کے سفیر رحیم حیات قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان مختلف قومیتوں اور ثقافتوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہے جہاں ہر برادری موسیقی، فنون، دستکاری اور کھانوں میں اپنی انفرادی شناخت رکھتی ہے، پاکستان کے ہنرمند بالخصوص خواتین آج بھی اسی تہذیبی ورثے کو بھرپور انداز میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے برسلز میں پاکستان کے سفارتخانے کی جانب سے پاکستان کی ثقافت، کھانوں اور ملبوسات کے عنوان سے تاریخی پارک دو سینکانتینیر میں واقع آٹوورلڈ میں منعقدہ ایک ثقافتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب میں یورپی پارلیمنٹ کے ارکان، بیلجئین وفاقی اور علاقائی پارلیمان کے ارکان، مختلف ممالک کے سفیروں، یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس، یورپی کمیشن اور بیلجئین حکومت کے اعلیٰ نمائندگان کے علاوہ کاروباری شخصیات میڈیا کے نمائندگان اور برسلز میں موجود سفارتی و ثقافتی برادری کے افراد شامل تھے۔ پیر کو سفارت خانے کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق تقریب میں بیلجیئم، لکسمبرگ اور یورپی یونین کے لئے پاکستان کے سفیر رحیم حیات قریشی نے پاکستان کے متنوع اور قدیم ثقافتی ورثے پر روشنی ڈالی جو ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر بحیرہ عرب کے ساحلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مختلف کمیونٹیز اور ثقافتوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہے جہاں ہر برادری موسیقی، فنون، دستکاری اور کھانوں میں اپنی انفرادی شناخت رکھتی ہے۔
انہوں نے اس شام کو دوستی اور ثقافتی تبادلے کا جشن قرار دیا اور بیلجئیم، لکسمبرگ اور یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر زور دیا جو تجارت، ترقی، ماحولیاتی عزم ، اور عوامی روابط کے مختلف پہلوں پر محیط ہیں۔ پروگرام میں روایتی موسیقی، پاکستان پر ایک مختصر دستاویزی فلم اور ایک خصوصی فیشن شو شامل تھا۔ یہ فیشن شو خصوصی اہمیت کا حامل تھا جس میں 2022 کے تباہ کن سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والی خواتین کاریگروں کے ہاتھوں سے تیار کردہ کپڑے پیش کیے گئے۔
یہ ملبوسات نہ صرف پاکستان کے ملبوسات کی روایت کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان میں حوصلے اور تسلسل کی کہانیاں بھی پوشیدہ ہیں جو آج کے ہنر کو وادی سندھ کی تہذیب سے جوڑتے ہیں۔ سفیر رحیم حیات قریشی نے یاد دلایا کہ آج سے 5000 سال قبل موہنجو داڑو جیسے شہر ترقی اور ٹیکسٹائل پیداوار کے مراکز تھے جہاں سے تیار کردہ مصنوعات میسوپوٹیمیا اور مصر جیسے دور دراز علاقوں کو برآمد کی جاتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ہنرمند بالخصوص خواتین آج بھی اسی تہذیبی ورثے کو استقامت کے ساتھ زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر مہمانوں نے پاکستان کے متنوع ذائقوں سے بھرپور کھانوں کا لطف بھی اٹھایا جس میں پاکستان سے خصوصی طور پر آنے والے شیفز نے مختلف علاقائی کھانوں پر مشتمل مینو تیار کیا۔
ان میں پنجاب کے زرخیز میدانوں سے لے کر گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں تک کے ذائقے شامل تھے۔ معروف پکوانوں میں خوشبودار باسمتی چاول، مصالحے دار سالن، روایتی اسٹریٹ فوڈ، اور کشمیری چائے شامل تھی۔ سفیر رحیم حیات قریشی نے کہا کہ پاکستانی کھانوں میں ملک کے مختلف علاقوں اور نسلوں کی جھلک ملتی ہے جو جنوبی، وسطی اور مغربی ایشیا کے اثرات سے مزین ہے۔ یہ تقریب پاکستان کے سیاحتی مواقع کو اجاگر کرنے کے لیے بھی ایک اہم پلیٹ فارم تھی۔ سفیر رحیم حیات قریشی نے مہمانوں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان کی قدرتی خوبصورتی اور ثقافتی ورثے کو دریافت کریں۔ لاہور کی مغلیہ شان، سندھ کے صوفی مزارات، موہنجوداڑو کے آثارِ قدیمہ اور شمالی علاقوں کے رنگارنگ میلوں سے لے کر ہر تجربہ پاکستانی مہمان نوازی کے دلکش جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ چھ عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات موجود ہیں اور بے شمار مقامات و تجربات سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں۔ آخر میں سفیر قریشی نے تمام شراکت داروں کا شکریہ ادا کیا جن کی مدد سے یہ تقریب ممکن ہوئی جن میں مرتضی ہاشوانی (ہاشو گروپ)، فیصل جہانگیر (وائٹ پرل گروپ) اور فواد (الکرم ٹیکسٹائلز) شامل تھے۔ یہ شام ثقافتی تبادلے، عزم وحوصلے اور مشترکہ اقدار کا پیغام لے کر اختتام پذیر ہوئی۔ ایسی تقاریب کے ذریعے سفارتخانہ پاکستان کی مثبت اور جامع تصویر پیش کرتا ہے اور یورپی شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو مزیدگہراکرتاہے۔
سفیر نے تقریب کو کامیاب بنانے میں بھرپور کوششیں بروئے کار لانے پر اپنی ٹیم خصوصاً ڈپٹی ہیڈ آف مشن سید فراز حسین زیدی، منسٹر اکنامک عمر حمید، ممبر (ڈبلیو سی او) اسد رضوی، ہیڈ آف چانسری محمد عادل، سیکنڈ سیکرٹری محمد عدیل، قونصلر اسد عباس اعوان اور ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ اتاشی محمد بلال کا بھی شکریہ ادا کیا۔