پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کا عالمی سطح پر اعتراف کیا جائے،ڈیجیٹل سپیس میں انسداد انتہا پسندی کے لیے عالمی تعاون بڑھایا جائے ، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کانفرنس سے خطاب

44

اسلام آباد۔2جولائی (اے پی پی):چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کاعالمی سطح پربھرپور اعتراف کرتے ہوئے انہیں شراکت داری کے ذریعے سپورٹ کیا جائےتاکہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے ختم کیا جا سکے، ڈیجیٹل سپیس میں انسداد انتہا پسندی کے لیے عالمی تعاون بڑھایا جائے۔انہوں نے یہ بات اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (آئی پی آر آئی) کے زیر اہتمام ایک اہم بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جس کا عنوان "پاکستان -دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط دیوار”تھا۔ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کی انسداد دہشت گردی میں خدمات، قربانیوں اور حکمت عملی کو اجاگر کرنا تھا۔آئی پی آر آئی کی طرف سے بدھ کو جاری پریس ریلیز کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کانفرنس سے افتتاحی خطاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نےدہشت گردی کے خلاف 92,000 سے زائد جانوں کی قربانی دی، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھایا، مگر دنیا ہماری قربانیوں کو بجا طور پر تسلیم کرنے کے بجائے سوال کرتی ہے کہ کیا پاکستان کافی کر رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے انسداد دہشت گردی اقدامات کو عالمی سطح پر معاونت اور شراکت داری کے ذریعے سپورٹ کیا جائےتاکہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے ختم کیا جا سکے، ڈیجیٹل سپیس میں انسداد انتہا پسندی کے لیے عالمی تعاون بڑھایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے القاعدہ، داعش، ٹی ٹی پی اور دیگر نیٹ ورکس کو شکست دی، پاکستان کا تجربہ دنیا کے لیے ماڈل کے طور پر اپنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان، ایف اے ٹی ایف قوانین اور سرحدی سکیورٹی آپریشنز کی بدولت داخلی سلامتی میں بہتری آئی۔بلاول بھٹو نے بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنے، مسئلہ کشمیر کے حل اور پانی کے مسئلے پر تعاون کی پیشکش کی۔انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ آئیے پاکستان کی افواج، پولیس اور عوام کی قربانیوں سے سیکھیں ہم نے نہ صرف دہشت گردی کا مقابلہ کیا، بلکہ اس کے خلاف ایک قابل تقلید بیانیہ بھی تشکیل دیا۔

صدر آئی پی آر آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ماجد احسان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ بورڈ رومز میں نہیں میدان جنگ میں لڑی ہے، 90 ہزار سے زائد قربانیوں کے بعد بھی پاکستان نے عالمی امن کے لیے اپنی جدوجہد ترک نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی حکمت عملی صرف عسکری اقدامات تک محدود نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور سفارتی سطح پر بھی مربوط اقدامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ جنگ محض بندوق سے نہیں بلکہ اپنے خون، قربانی اور قومی عزم سے لڑی ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے اور پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ریاست تسلیم کیا جائے۔ سابق مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی پاکستان کے لیے صرف ایک سکیورٹی چیلنج نہیں بلکہ ایک قومی آزمائش ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان نے 90,000 سے زائد جانیں قربان کیں اور 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کیا، یہ صرف ایک ریاستی جنگ نہیں بلکہ ایک قومی بیانیہ ہے۔ ممبر پی وی ای نیکٹا ڈاکٹر خالد چوہان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر موثر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ قومی نصاب میں اصلاحات کی اہمیت پر زور دیا۔ ڈاکٹر انیل سلمان نے کانفرنس میں معاشی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف موثر اقدامات کیے، پاکستان کی مالیاتی اصلاحات بین الاقوامی معیار پر پوری اتریں لیکن ابھی بھی ہنڈی جیسے بعض مسائل پر مستقل بنیادوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

سابق آئی جی ڈاکٹر سید کلیم امام نے کہا کہ دہشت گردی صرف باہر سے درآمد شدہ مسئلہ نہیں، بلکہ ملک کے اندرونی عوامل بھی اسے بڑھاوا دیتے ہیں۔ انہوں نے پولیس کو پہلا ردعمل دینے والا ادارہ بنانے، سرحدی علاقوں میں مقامی بھرتی اور پیشگی انٹیلیجنس مراکز کے قیام کی تجویز دی۔ سوال و جواب سیشن میں شرکا نے قومی ایکشن پلان کی جزئیات، سہولت کاروں کے احتساب، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اصلاحات کے حوالہ سے سوالات کئے ۔ مقررین نے جواب میں موقف اختیار کیا کہ انسدادِ دہشت گردی صرف قانون کا مسئلہ نہیں بلکہ اجتماعی قومی شعور اور سیاسی ارادے کا تقاضا ہے۔