قبائلی اضلاع کا انضمام واپس نہیں ہورہا، تحفظات پر بات ہو سکتی ہے ، امیر مقام کی پریس کانفرنس

58

اسلام آباد۔7جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیر امور کشمیرو گلگت بلتستان اورسیفران انجینئر امیر مقام نے کہا ہے کہ قبائلی اضلاع کا انضمام واپس نہیں ہورہا، جس کو اعتراض ہے وہ تحفظات پر بات کر سکتا ہے، وزیراعظم نے نیک نیتی سے کمیٹی بنائی لیکن اس پر بھی سیاست ہورہی ہے، ہمارا موقف ہے کہ منظور شدہ قوانین کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، ضم شدہ اضلاع پر سیاست چمکانا افسوسناک ہے ، کوئی نئی آئینی ترمیم نہیں کی جا رہی ، خیبرپختونخوا میں حکومتی پارٹی منتشر ہے ، ہمارا فی الحال کسی سے کوئی رابطہ نہیں، سیاست میں سب کچھ ممکن ہے، حالات کے مطابق فیصلے کریں گے۔

پیر کو یہاں پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم کے دورہ پشاور پر ضم اضلاع کا جرگہ ہوا، قبائلی عمائدین کے تحفظات پر تبادلہ خیال ہوا ،وزیراعظم نے اس حوالے سے کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے سب منتخب نمائندوں سے رابطے کا فیصلہ کیا، ضم اضلاع میں عوام کی حالت میں بہتری لانے کا ٹاسک ملا ہے، سب کی مشاورت سے کوشش کریں گے کہ قبائل کے تحفظات دور ہوں ، افسوس ہے کہ اپوزیشن نے کمیٹی کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کا انضمام واپس نہیں ہورہا، جس کو اعتراض ہے وہ اپنے تحفظات پر بات کر سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے وزیراعظم نے کمیٹی تشکیل دی ہے لیکن اس پر بھی سیاست ہورہی ہے،

ہمارا موقف ہے کہ منظور شدہ قوانین میں بہتری لائی جاسکتی ہے ، ملک اب ترقی کے لئے ٹیک آف کر چکا ہے،اپوزیشن والے آئیں اور کمیٹی میں اپنے تحفظات پر بات کریں، 18 ویں ترمیم کو ختم نہیں کررہے،ایف سی آر کا فرسودہ نظام واپس نہیں لایا جا رہا ۔انہوں نے کہا کہ جہاں قوانین کے اطلاق کا مسئلہ ہو تو ان میں باہمی مشاورت سے بہتری لائی جا سکتی ہے ، قبائلی عوام کے حقوق کی بہتری کیلئے کام کرنا کمیٹی کا ایجنڈا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے فاٹا اور جرگہ سسٹم سے متعلق کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں وزیر اعلیٰ، گورنر، وفاقی وزیر احسن اقبال اور دیگر اراکین شامل ہیں، کمیٹی نے تمام سٹیک ہولڈرز سمیت پارلیمنٹیرینز سے بھی مشاورت کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ سابق اراکین پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اور بیوروکریٹس سے ملنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، بہت سے لوگوں سے بات ہوچکی ہے ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ہی فاٹا کا انضمام ہوا ، فاٹا انضمام کو واپس کرنے کی افواہوں کی تردید کرتا ہوں ۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر فاٹا جل رہا ہو تو کیا ہم مداخلت نہیں کریں گے ؟ سابقہ فاٹا کے عوام کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ وفاقی وزیر امیر مقام نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع پر سیاست چمکانا افسوسناک ہے ،کوئی نئی آئینی ترمیم زیر غور نہیں ہے ، ہم کسی ترمیم کو ختم نہیں کر رہے بلکہ موجودہ نظام اور قانون میں بہتری کیلئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی شکایت ہے کہ سستا اور فوری انصاف نہیں مل رہا ،

انضمام کے فوائد نہیں مل رہے، ضم اضلاع میں گورننس کا مسئلہ ہے لیکن مدعو کرنے کے باوجود بھی پی ٹی آئی نے کمیٹی کا بائیکاٹ کردیا جبکہ پہلے اجلاس میں پی ٹی آئی رہنما شریک تھے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے جرگہ بحالی کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا بلکہ آئین اور قانون کے تحت جرگہ سسٹم کے جائزہ کی بات کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نوٹس دیے بغیر لوگوں کی بلڈنگز گرانا زیادتی ہے، میں نے 2008میں تعمیر شدہ ہوٹل خریدا ، میرے ہوٹل کے تمام قانونی ضابطے مکمل ہیں اگر یہ غیر قانونی ہوتا تو کب کا گرا چکے ہوتے۔ امیر مقام نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں حکومتی پارٹی منتشر ہے ، ہم نے فی الحال کسی سے کوئی رابطہ نہیں کیا لیکن سیاست میں سب کچھ ممکن ہے اور حالات کے مطابق فیصلے کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہاکہ المناک سانحہ دریائے سوات کے بعد خیبر پختونخوا کی حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ درحقیقت اپنی نااہلی کو چھپانے کی کوشش ہے۔ ایک حساس اور مرکزی مقام یعنی ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں افسوسناک واقعہ پیش آتا ہے لیکن حکومت کی جانب سے بروقت امداد یا مؤثر ردعمل سامنے نہیں آتایہی ان کی ناکامی کا ثبوت ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنی کمزوریوں سے توجہ ہٹانے کیلئے حکومت نے تجاوزات کے خلاف نام نہاد آپریشن کا ڈرامہ رچایا ہے۔ جن ہوٹلز کو گرایا گیاان کے مالکان کو نہ تو پیشگی نوٹس دیا گیا نہ کوئی قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ انہی عمارتوں کے این او سیز اور اجازت نامے انہی حکومتوں نے دیے تھےجو گزشتہ بارہ تیرہ سالوں سے اقتدار میں ہیں ۔جہاں تک میرے ہوٹل کا تعلق ہے وہ دو ہزار پانچ میں مکمل قانونی طریقے سے بنایا گیا۔ اس کا نقشہ باقاعدہ اپروو ہوا اور این او سی جاری کی گئی۔ میں نے یہ ہوٹل بعد میں خرید لیا اور تمام قانونی دستاویزات میرے پاس موجود ہیں۔ یہ ہوٹل فی الحال فنکشنل بھی نہیں اس کے باوجود مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اصل دکھ ان سینکڑوں غریب لوگوں کا ہے جن کے کاروبار بغیر کسی پیشگی اطلاع اور قانونی عمل کے تباہ کر دیے گئے، یہ رویہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔پریس کانفرنس میں سیکرٹری وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان ظفر حسن بھی موجود تھے۔