اسلام آباد۔8جولائی (اے پی پی):پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کااجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پی اے سی کے چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی ۔ اجلاس میں وزارت مواصلات اور وزارت خزانہ کے 24-2023 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ۔وزارت مواصلات کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے آڈٹ حکام نے بتایا کہ پاکستان پوسٹ آفس نے مالی سال 2021 میں 4 ارب سے زائد مالیت کے مختلف مدات میں خلاف قواعد استعمال کئے ۔ سیکرٹری مواصلات نے بتایا کہ ہمارے ملک بھر میں 85 جی پی اوز ہیں تمام نے لکھ کر دے دیا ہے کہ وہ آڈٹ کی مرضی کے مطابق ساری رقم کا حساب دینے کے لئے تیار ہیں ۔
ڈی جی پاکستان پوسٹ نے کہا کہ نیشنل بنک نے گذشتہ دن اسلام آباد جی پی او کا ڈیٹا دے دیا ہے ۔ جیسے ہی ہمیں باقی ڈیٹا نیشنل بینک سے ملتا ہے تو ہم مسئلہ حل کریں گے ۔ نیشنل بنک حکام نے بھی پی اے سی کو بتایا کہ وہ ڈیٹا فراہم کرنے کے لئے تیار ہے ۔ پاکستان پوسٹ کی جانب سے بتایا گیا کہ اب ہمارے ریونیو کی رقم نیو اکائونٹنگ سسٹم کے تحت اپنی متعلقہ مد میں ہی جاتا ہے ۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2024 میں ان کی اپنی رپورٹ میں کہا گیا ہے اب بھی اس ادارے میں مالیاتی نظم و ضبط کا فقدان ہے۔
نیشنل بینک تو ڈیٹا فراہم کر سکتا ہے باقی نظام درست کرنے کی ذمہ داری تو پاکستان پوسٹ کی اپنی ہے ۔ سیکرٹری مواصلات نے کہا کہ تمام حسابات کی مکمل چھان بین کریں گے جس کی بھی کوتاہی ثابت ہوئی کارروائی کریں گے ۔ کوٹ ادو محمود کوٹ میں تیل ڈیپو سے سیم نالے میں 180 ملین روپے کا تیل بہ جانے کے معاملے پر پی ایس او کی جانب سے بتایا گیا کہ اس حوالے سے 5 اہلکاروں کی غفلت پائی گئی جن کو نوکریوں سے نکال دیا گیا اور ان سے 42 لاکھ کی ریکوری کی گئی ۔
پی اے سی کے ارکان کا کہنا تھا اس واقع سے ماحولیات کو بھی نقصان پہنچا ہے ۔ سیکرٹری پیٹرولیم ڈویژن نے بھی کہا کہ اس کی تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر تحقیقات ہونی چاہیئے ۔ ارکان کا کہنا تھا کہ اس سے زیر زمین پانی کو بھی نقصان پہنچا ہے ۔ تھرڈ پارٹی آڈٹ ہونا چاہئے ۔ پی اے سی کے ارکان نے ایم ڈی پی ایس او کے مؤقف سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ صرف چھوٹے ملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی اور بڑے افسران کو بچایا گیا ۔ پی اے سی نے اس معاملے کی مکمل چھان بین کے لئے پی اے سی کی سید نوید قمر کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی کے سپرد کر دیا ۔
وزارت خزانہ کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے آڈٹ حکام نے بتایا کہ نادرا ہیڈ کوارٹر 25 سالوں سے بغیر کسی معاہدے کے اسٹیٹ بنک کی عمارت میں کام کر رہا ہے ۔ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک نے کہا کہ ہماری نادرا سے بات ہوئی ہے اب وہ معاہدہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پی اے سی کے ارکان نے کہا کہ اس معاملہ پر اسٹیٹ بینک کی غفلت ظاہرہوتی ہے ۔ چیئر مین نادرا کو بلا کر باز پرس کی جائے ۔
وہ ہماری پرانی اسمبلی بلڈنگ اور قومی ورثہ کا درجہ رکھتی ہے ۔ اس عمارت کو اپنی اصل حالت میں بحال بھی ہونا چاہیے ۔ نادرا ہر سروس کی فیس وصول کرتا ہے ۔ اسے بھی اپنے بقایا جات اسٹیٹ بنک کو ادا کرنے چاہیئں ۔ سٹیٹ بینک سے بھی بازپرس کی جائے ۔ پی اے سی نے آئندہ اجلاس میں اس معاملہ پر وضاحت کےلئے چیئرمین نادرا کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔