لاہور۔1ستمبر (اے پی پی):محکمہ آبپاشی پنجاب نے موجودہ مون سون سیزن کے دوران صوبے بھر میں 40 گراونڈ واٹر ری چارج مقامات قائم کیے ہیں، جو تیزی سے کم ہوتے ہوئے پانی کے ذخائر کو دوبارہ بھرنے کی کوششوں میں نمایاں اضافہ ہے۔یہ مقامات محکمہ آبپاشی کے ریسٹ ہاوسز اور دفاتر لاہور، فیصل آباد، ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، چکوال، جہلم، قصور اور دیگر اضلاع میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان کا مقصد بارش کے پانی کو محفوظ کر کے خصوصی طور پر بنائے گئے ری چارج ویلز کے ذریعے زیرزمین منتقل کرنا ہے۔ڈائریکٹر اریگیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی آر آئی) ڈاکٹر غلام ذاکر حسن سیال نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ یہ اقدام پنجاب کے زیرزمین پانی کے ذخائر کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ری چارج ویلز کے ذریعے ہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ صاف بارش کا پانی ضائع نہ ہو بلکہ زیرزمین ذخیرہ ہو کر پائیدار استعمال کے لیے دستیاب رہے۔مینجڈ ایکویفر ری چارج (ایم اے آر) ماڈل کے تحت سرکاری عمارتوں کی چھتوں اور لانز سے جمع کیا گیا بارش کا پانی فلٹر ہو کر ان ویلز میں ڈالا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سیال نے کہا کہ یہ پانی شہری فضلے اور صنعتی آلودگی سے پاک ہوتا ہے، اس لیے آبی ذخائر کے لیے محفوظ ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ نظام کم لاگت، ماحولیاتی طور پر محفوظ ہے اور اگر مزید وسعت دی جائے تو پنجاب کو درپیش بڑھتے ہوئے پانی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔نئے مقامات وہاڑی میں کامیاب پائلٹ پروجیکٹ کے بعد قائم کیے گئے ہیں، جہاں اسلام ہیڈ ورکس سے آنے والا سیلابی پانی میلسی کینال بیڈ کے ساتھ 144 ری چارج ویلز میں منتقل کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں علاقے میں زیرزمین پانی کی سطح 3 سے 5 فٹ بلند ہوئی، جس نے اس ماڈل کی افادیت کو ثابت کیا۔میلسی کینال، جو 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے بعد چھ دہائیاں قبل ترک کر دی گئی تھی، اب زیرزمین ذخائر کو ری چارج کرنے میں نیا کردار ادا کر رہی ہے۔ ڈاکٹر سیال نے کہا کہ پائلٹ پروجیکٹ ایک آنکھ کھول دینے والا تجربہ تھا کیونکہ اس نے یہ دکھایا کہ ایکویفر ری چارج دراصل زیرزمین پانی کی کمی کو پلٹا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ صرف ویلز کا معاملہ نہیں بلکہ روزگار، زراعت اور شہری پانی کی فراہمی کو محفوظ بنانے کا معاملہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایکویفر ری چارج میں سرمایہ کاری دراصل پنجاب کے مستقبل میں سرمایہ کاری ہے۔محکمہ آبپاشی نے دیگر سرکاری اداروں اور نجی اداروں کے ساتھ تعاون پر آمادگی کا بھی اظہار کیا ہے تاکہ اس ماڈل کو مزید پھیلایا جا سکے۔ ڈاکٹر سیال نے کہا کہ ان ویلز کو دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں وسعت دینے سے آبی ذخائر پر دبا کم ہوگا، زرعی پائیداری میں بہتری آئے گی اور بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی یقینی ہو گی۔ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق تیز رفتار شہری آبادی، پختہ سطحوں اور دریاوں کے کم ہوتے بہاو نے ملک میں قدرتی گراونڈ واٹر ری چارج کو محدود کر دیا ہے، جبکہ موسمیاتی تبدیلی نے مون سون کے غیر متوازن پیٹرن کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر واٹر ریسورسز سہیل علی نقوی نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ بڑے پیمانے پر ری چارج پروگرامز کے بغیر لاہور جیسے شہر مستقبل قریب میں زیرزمین پانی کی کمی کا سامنا کر سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے صرف لاہور میں ہی 47 ری چارج ویل یونٹس نصب کیے ہیں، جو زیادہ تر جامعات اور سرکاری اداروں میں ہیں اور جن کی مشترکہ سالانہ ری چارج صلاحیت 2 لاکھ 60 ہزار مکعب میٹر ہے۔نقوی نے کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے ری چارج سائٹس میں توسیع کا فیصلہ بروقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مناسب مانیٹرنگ اور کمیونٹی کی شمولیت کے ساتھ یہ اقدام پانی کے تحفظ کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔