حکومت غریب اورتنخواہ دارطبقہ پربوجھ نہیں بڑھائےگی، برآمدات اورپیداوارمیں اضافہ کیلئے جامع منصوبہ بندی سے آگے بڑھیں گے، وزیرخزانہ شوکت ترین کی قومی اقتصادی سروے کے اجرا پرپریس کانفرنس

166

اسلام آباد۔10جون (اے پی پی):وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات شوکت ترین نے کہاہے کہ حکومت غریب اورتنخواہ دارطبقہ پربوجھ نہیں بڑھائےگی، برآمدات اورپیداوارمیں اضافہ کیلئے جامع منصوبہ بندی سے آگے بڑھیں گے، حکومت نے کوویڈ19کے حوالہ سے دانش مندانہ پالیسیاں اپنائیں اورکورونا وائرس کے اثرات کوکم یا زائل کیا، میگااقتصادی پیکج کے تحت خصوصی مراعات سے بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں 9 فیصد اورزراعت میں 2.77فیصدکی بڑھوتری ہوئی، گندم، چاول، مکئی اورکماد کی بمپرپیداوارحاصل ہوئی، مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ترسیلات زرکی مدمیں 26 ارب ڈالرحاصل ہوئے ہیں اورسال کے اختتام پریہ 29 ارب ڈالرہوجائیں گے،

ترسیلات زرمیں اضافہ وزیراعظم عمران خان پربیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے اعتماد کامظہرہے، آئندہ مالی سال کیلئے محصولات کاہدف 5800 ارب روپے رکھا جارہاہے، گردشی قرضہ کے بتدریج خاتمہ کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ جمعرات کویہاں قومی اقتصادی سروے 2020-21 کے اجرا کے موقع پر وفاقی وزیرمخدوم خسروبختیار،مشیرتجارت عبدالرزاق داؤد، ڈاکٹرثانیہ نشتر، اورمعاون خصوصی ریونیو ڈاکٹروقار مسعودکے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ نے کہاکہ موجودہ مالی سال کاجب آغازہواتوکوویڈ19 کی وبا کی لہرپھیلی ہوئی تھی، حکومت نے کوویڈ19کے حوالہ سے دانش مندانہ پالیسیاں اپنائی اورکورونا وائرس کے اثرات کوکم یا زائل کیاگیا،

سمارٹ لاک ڈاون کے حوالہ سے فیصلہ دانش مندانہ ثابت ہوا، حکومت نے مالیاتی اورزری بنیادوں پربھی فیصلے کئے، وزیراعظم نے اپنی کوششوں سے ہاوسنگ اورتعمیرات کے شعبہ کیلئے خصوصی مراعاتی پیکج دیا اوراس ضمن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے خصوصی مراعات حاصل کی گئیں، شہریوں کو ویکسین کی فراہمی کاعمل شروع کیاگیا، این سی اوسی کاقیام ایک بڑااقدام تھا جس کی موثرنگرانی میں کوویڈ کی لہروں پرقابوپانے میں مددملی ہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ کوویڈ کی پہلی لہراورلاک ڈاون سے کام کرنے والے 5کروڑ60 لاکھ افراد کی تعداد گھٹ کر3 کروڑ50 لاکھ کی سطح پرآگئی،

یعنی دوکروڑ افراد جن میں سے بیشتردیہاڑی دار اور ذاتی روزگاروالی آبادی شامل تھی،بے روزگارہوئی اورانہیں کوئی کام نہیں مل رہاتھا، وزیراعظم عمران خان نے اس ضمن میں دانش مندانہ پالیسیاں اپنائیں، ان پالیسیوں کے نتیجہ میں گزشتہ سال اکتوبرمیں کام کرنے والے افراد کی تعداد دوبارہ بڑھ کر5 کروڑ30لاکھ ہوگئی ہے، معیشت بحال اوربڑھوتری کی جانب گامزن ہے، وزیرخزانہ نے کہاکہ سال کے آغازمیں بڑھوتری کااندازہ 2.8فیصد لگایا گیاتھا، آئی ایم ایف اورعالمی بینک اس سے کم بڑھوتری کے اندازے لگارہے تھے تاہم حکومت نے انسانی زندگیوں کے تحفظ اورکاروبارکے حوالہ سے جو فیصلے کئے اس سے بہت بہترنتائج سامنے آئے،

حکومت نے میگااقتصادی پیکج کے تحت مینوفیکچرنگ، ٹیکسٹائل، تعمیرات اورزراعت کیلئے خصوصی مراعات کااعلان کیا، ان اقدامات سے بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں 9 فیصد اورزراعت میں 2.77فیصدکی بڑھوتری ہوئی، کاٹن کی فصل خراب ہونے سے ہمیں زرعی پیداوارمیں کمی کاخدشہ تھا تاہم گندم، چاول، مکئی اورکماد کی بمپرپیداوارحاصل ہوئی ہے، ترسیلات زرکے شعبہ میں نمایاں بہتری آئی ہے، مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ترسیلات زرکی مدمیں 26 ارب ڈالرحاصل ہوئے ہیں اورسال کے اختتام پریہ 29 ارب ڈالرہوجائیں گے،

ترسیلات زرمیں یہ اضافہ وزیراعظم عمران خان پربیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے اعتماد کامظہرہے۔ موجودہ حالات میں ترسیلات زرمیں یہ اضافہ ہمارے لئے رحمت سے کم نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہورہاہے، حسابات جاریہ کے کھاتے کئی ماہ فاضل میں چل رہے ہیں، روشن ٖڈیجیٹل اکاؤنٹ میں ایک ارب ڈالرآئے ہیں اوراس میں اضافہ ہورہاہے، زرمبادلہ کے ذخائر جو 2018 میں 8ارب ڈالرکی سطح پرتھے اب 16 ارب ڈالرسے تجاوزکرگئے ہیں ِ۔ فیٹف میں ہماری کارگردگی اچھی رہی ہے اورامید ہے کہ پاکستان کے حوالہ سے جائزہ میں ہمیں ریلیف ملےگا، فیٹف کمیٹی نے جو فیڈ بیک دیا ہے وہ حوصلہ افزاہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ ایمازون نے پاکستان کوسیلرلسٹ میں شامل کردیاہے،

ایف بی آر نے 11 ماہ میں 4.2 ٹریلین روپے کی محصولات اکھٹاکیں، ایف بی آر کی محصولات میں اضافہ کی شرح 18 فیصدکے قریب رہی، مارچ کے بعد سے لیکراب تک ایف بی آر کی وصولیوں کی شرح 50 سے 60 فیصدزیادہ ہے، جاری مالی سال کیلئے ریونیوکا ہدف4.7 ٹریلین روپے تھا جو حاصل کرلیا جائیگا، آئندہ مالی سال کیلئے محصولات کاہدف 5800 ارب روپے رکھا جارہاہے۔ انہوں نے کہاکہ پرائمری بیلنس کوسرپلس کردیا گیاہے، گزشتہ 12 برسوں میں پہلی بارہماراپرائمری بیلنس سرپلس ہواہے، وزیرخزانہ نے کہاکہ یہ ایک حقیقیت ہے کہ بین الاقوامی منڈیوں میں تیل، چینی، خوردنی تیل اوردیگراشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے، پاکستان اب خوراک کی زیادہ اشیا درآمد کررہاہے،

ہماری کوشش ہے کہ خوراک کی اشیا کی درآمدات میں کمی اوربرآمدات میں اضافہ کیا جائے۔عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافہ سے ہم نہیں بچ سکتے تاہم ہماری کوشش ہے کہ عام آدمی پراس کے اثرات کوکم سے کم کیاجائے، جاری مالی سال میں عالمی منڈی میں چینی کی قیمت میں 58 فیصداضافہ ہوا، حکومت نے صرف 19سے لیکر12 فیصدتک اضافہ کیا اور38 فیصد بوجھ خودبرداشت کیا، پام آئل کی بین الاقوامی قیمت میں 119 فیصداضافہ ہوا، پاکستان میں 22 فیصداضافہ صارفین کومنتقل ہواجبکہ باقی بوجھ حکومت نے برداشت کیا اسی طرح خام آئل اوردیگراشیا کی قیمتوں میں زیادہ تربوجھ حکومت نے خودبرداشت کیا اورصارفین کوقیمتوں میں اضافہ کے اثرات سے محفوظ رکھا گیا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ مہنگائی پرقابوپانا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، اس مقصد کیلئے پیداوارمیں اضافہ کے ساتھ ساتھ انتظامی اقدامات پربھی توجہ دی جارہی ہے،

ریٹیل اورہول سیل کے درمیان منافع کے مارجن کوکم کرنے کیلئے وئیرہاوسز اورکولڈسٹوریجز بنائے جارہے ہیں، پہلی مرتبہ گھی، دالوں، گندم، چینی اوردیگراشیا کے سٹریٹجک ذخائرقائم کئے جارہے ہیں تاکہ مستقبل میں کسی قسم کی ناجائرمنافع خوری نہ ہو۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ تیزی سے ترقی کررہی ہے، ہماری سٹاک مارکیٹ ایشیا کی پہلی اوردنیا کی چوتھی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی سٹاک مارکیٹ بن گئی ہے۔ قرضوں کی صورتحال کاجائزہ لیتے ہوئے وزیرخزانہ نے بتایا کہ حکومت کے اولین دنوں میں ہمارامالیاتی خسارہ بہت بڑھ گیاتھا، حسابات جاریہ کے کھاتوں میں 20 ارب ڈالرکاخسارہ تھا، اسلئے شرح سود اورایکسچینج ریٹ بڑھانا پڑا، اس کی وجہ سے قرضوں کی مد میں پہلے سال اضافہ ہواتاہم اب اس میں کمی آرہی ہے،

اس سال مارچ کے آخر تک مجموعی قرضہ 38ٹریلین روپے تھا، جس میں 25 ٹریلین روپے کا قرضہ مقامی اورساڑھے 12 ٹریلین روپے کاغیرملکی قرضہ شامل ہے، جاری مالی سال میں قرضوں میں صرف 1.7 ٹریلین کا اضافہ ہواہے، جو پیوستہ سال کے مقابلہ میں کم ہے، سال 2019 میں قرضوں میں 3.7 ٹریلین کااضافہ ہواتھا، رواں سال بیرونی قرضہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں 700 ارب روپے کم ہے۔جون 2020 میں غیرملکی قرضہ 13.1 ٹریلین روپے تھا جو اب 12.5 ٹریلین کی سطح پرہے۔پاکستان نے عالمی بانڈ مارکیٹ میں کامیابی سے قدم رکھے ہیں اور2.5 ارب ڈالرکے بانڈز جاری ہوئے، پاکستان کی صنعت نے ترقی کی ہے، موبائل فون کے استعمال کاحجم 182 ملین ہوگیاہے، براڈبینڈصارفین کی تعداد 100 ملین سے تجاوزکرگئی ہے اوراس شعبہ میں 48 فیصدبڑھوتری ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ احساس سماجی تحفظ کابڑا پروگرام ہے،

عالمی بینک نے احساس پروگرام کودنیاکا سماجی تحفظ کابہترین اوربڑاپروگرام قراردیاہے، اس پروگرام کے تحت 15 ملین خاندانوں کو نقدمعاونت فراہم کی گئی، وزیراعظم نے کامیاب جوان پروگرام کاآغازکیاجس سے 8 سے لیکر9 ہزارجوان مستفیدہورہے ہیں، 10 بلین ٹری سونامی پروگرام پربھی کامیابی سے عمل درآمد جاری ہے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ موڈیز، فچ اورسٹینڈرڈاینڈپورز جیسے بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہترکی ہے۔پاکستان کے استحکام کا پروگرام بہترہواہے، اب ہمیں بڑھوتری کی طرف جانا ہے، وزیراعظم صاحب کوبھی ہم نے بتایاہے کہ 6سے لیکر7فیصد کی بڑھوتری کے بغیرہم اپنے جوانوں کوروزگارفراہم نہین کرسکتے جوآبادی کا60 فیصدہے، ہمیں سالانہ روزگارکے 20لاکھ مواقع فراہم کرنا ہے، اس مقصد کیلئے حکومت وقتاً فوقتاً اقدامات کرے گی، ہم نے غریب کاخیال رکھناہے کیونکہ پہلے ٹریکل ڈاون کاخواب دکھایاگیاتھا، ٹریکل ڈاون اس وقت کامیاب ہوتاہے جب ترقی اوربڑھوتری پائیدارہوں، پاکستان میں 60کی دہائی کے بعد ایسا دورنہیں آیا جب بڑھوتری میں تسلسل ہوں، حکومت بجٹ میں اس پرتوجہ دے رہی ہے،

ہماری کوشش ہے کہ 40لاکھ سے لیکر60لاکھ گھرانوں کی زندگیوں میں آسانیاں لائی جائے، اس مقصد کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں، ہمارا طریقہ کارنیچھے سے اوپر کی طرف ترقی پرمبنی ہوگا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ یہ بات خوش آئند ہے کہ بڑی صنعتوں کی پیداوارکی بڑھوتری کی شرح 9 فیصد ہے تاہم ایس ایم ایز پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے، ایس ایم ایزکو ایک لاکھ 80 ہزارقرضے دئیے گئے ہیں جو بہت کم ہے، 75فیصد قرضے کارپوریٹ سیکٹرلے رہاہے، ایس ایم ایز کیلئے قرضوں کی شرح 6فیصد ہے جیسے بڑھایا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ برآمدات میں اضافہ ہماری ترجیح ہے، برآمدات میں اضافہ کیلئے متنوع اوراختراعی طریقے اختیارکئے جائیں گے، وزارت تجارت کی تجاویز پرمختلف شعبوں کیلئے مراعات دئیے جائیں گے۔حکومت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات میں اضافہ پربھرپورتوجہ دے رہی ہے، اس شعبہ میں برآمدات میں اضافہ کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ غذائی خودکفالت اوربرآمدات ہماری ترجیح ہے،

ہاوسنگ کے شعبہ میں بہت استعداد موجود ہے جس سے بھرپورطریقے سے استفادہ کیاجائیگا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ بجلی کے شعبہ میں بہتری لائی جارہی ہے، بجلی ایک بڑا بلیک ہول ہے، ہمیں کیپسٹی ادائیگیاں کرنا پڑرہی ہے، آئی ایم ایف نے ٹیرف میں اضافہ کابوجھ ڈالاتاہم وزیراعظم نے انکارکیا، ہماری کوشش ہے کہ گردشی قرضہ میں بتدریج کمی آئے، اس وقت ادائیگیوں کی وجہ سے گردشی قرضہ آدھا رہ گیاہے، ہماری کوشش ہوگی کہ اس کوزیروکردیا جائے،۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ سی پیک کے حوالہ سے بنیادی ڈھانچہ قائم ہوگیاہے، خصوصی اقتصادی زونز بن چکے ہیں،

ہمیں ان زونز میں سرمایہ کاری لانا ہے، چین سالانہ 10 ملین ملازمیتیں آوٹ سورس کرتا ہے، اس میں پاکستان کیلئے مواقع ملنے کی کوشش کی جائیگی، چین سے اس حوالہ سے تعاون مانگیں گے، ایم ایل ون پربھی پیش رفت ہوگی۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت ایک سرکاری سماجی تحفظ کا نیٹ ورک دینا چاہتی ہے، احساس پروگرام پاکستان میں سماجی تحفظ کانیٹ ورک ہوگا۔ سرکاری کاروباری اداروں کاحوالہ دیتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ ان اداروں پربہت پیسے ضائع ہورہے ہیں، ماضی میں بھی حکومتوں نے ان کی نجکاری کے اعلانات کئے تاہم ان پرعمل نہیں ہوا، صرف چندبینکوں کی نجکاری ہوئی، حکومت نے نجکاری کمیشن میں ماہرین کا بورڈ بنانے کافیصلہ کیاہے، شروع میں 15 اداروں کوان کے حوالہ کیا جائیگا، اورانہیں نجکاری کاہدف دیا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ مالیاتی شعبہ کی بہتری ہماری ترجیح ہے،

اس وقت جی ڈی پی کے لحاظ سے بینکنگ کاحصہ 33فیصد ہے جو بہت کم ہے، اس میں اضافہ کیاجائیگا، اس وقت 9 شہر 85فیصد قرضہ حاصل کررہے ہیں باقی ملک کاکیا قصورہے، علاقائی بینکوں کاقیام بھی عمل میں لایا جارہاہے۔آئی ایم ایف سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے مذاکرات چل رہے ہیں، پائیدارترقی اوربڑھوتری ہمارا مشترکہ ہدف ہے تاہم طریقہ کارکافرق ہے،

آئی ایم ایف والے ٹیرف اورپرسنل انکم ٹیکس بڑھانا چاہتے ہیں ہماراموقف ہے کہ ہم اپنے ٖغریب آبادی کیلئے ٹیرف اورنہ ہی تنخواہ دارطبقہ پرپرسنل انکم ٹیکس بڑھانا چاہتے ہیں، ہماری بات چیت چل رہی ہے تاہم حکومت کے یہ ریڈلائنز ہے کہ غریب اورتنخواہ دارطبقہ پربوجھ نہیں بڑھائیں گے۔ایک اورسوال پرانہوں نے کہاکہ سیلف اسسمنٹ کاطریقہ کاروضع کیاجارہاہے،

اس کے تحت 3سے لیکر4 فیصد کی آبادی کاآڈٹ ہوگا، اس سے ایف بی آرکی ہراسمنٹ کاخاتمہ ہوگا۔ حکومت ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرے گی جو ٹیکس دینے کے اہل تو ہیں لیکن وہ ٹیکس نہیں دے رہے، ایسے لوگ ٹیکس گزاروں پربوجھ ہیں اورانہیں جیلوں میں بھیجاجائیگا۔