خطاطی اور کاشی کاری کا فن خطرات سے دوچار

رپورٹ: رضی الدین رضی

پانچ ہزار سال قدیم شہرملتان ہمیشہ سے فنون لطیفہ کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کے فنکاروں اور دستکاروں نے دنیا بھرمیں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اوراس کی سب سے بڑی مثال تاج محل ہے جس کی تعمیر میں ملتان کے خطاطوں ،ہنرمندوں اور معماروں نے حصہ لیا۔دیگر فنون کی طرح ملتان صدیوں سے فنِ خطاطی اور کاشی کاری کابھی مرکز ہے ۔ محمد بن قاسم کی آمد کے بعد اس خطے میں اسلام پھیلا تو اس کے ساتھ ہی فن خطاطی نے بھی یہاں فروغ حاصل کیا۔اور پھر خطاطی کو یہاں اس قدر پذیرائی ملی کہ مختلف ممالک سے اہل فن کی بڑی تعداد ملتان ، لاہور اور دہلی پہنچ گئی ۔

قران پاک کو مختلف رسم الخط میں تحریر کیا گیا اور فنِ خطاطی نے کوفی رسم الخط سے جدید نسخ اور نستعلیق خط تک ایک طویل سفر طے کیا اور پھرقرآنی تحریر میں ایسے ایسے اسلوب پیدا کیے گئے جنہیں قمری رسم الخط،گلزاری رسم الخط کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔خود کوفی رسم الخط کی بے شمار اقسام سامنے آئیں۔اس تنوع تحریر کودیکھ کرسچ مچ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔اسی طرح کاشی کار بھی صدیوں پہلے ملتان آئے اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔تاریخ پر نظر ڈالیں تو کاشی کارایران کے شہر کاشان سے ملتان پہنچے اورپھرانہوں نے بہت سے مزارات اور مقابرکی تعمیرات میں اپنے فن کا بھرپور اظہارکیا۔جیسے حضرت شاہ یوسف گردیز کے مزار پر کاش گری کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح ملتان کی قدیم مساجد اور مزارات پر موجودخطاطی کے نادر نمونے ہمیں آج بھی ان فنکاروں کی یاد دلاتے ہیں جنہوں نے ملتان میں اس فن کو جلا بخشی ۔

بابربادشاہ خود ایک لاجواب خطاط تھا اس نے خط نسخ سے خط بابری کااختراع کیا۔بابر کاسلسلہ تلمذ میر علی تبریزی سے جاملتا ہے۔جہانگیری دور میں ایک مشہورخطاط عبدالعزیز ملتانی قریشی نے کمال خطاطی سے جہانگیر کو مسحور کیاتھا۔میرملا قیوم قندھاری ثم ملتانی نے اپنی آخری عمر ملتان میں ہی بسر کی اورفن خطاطی کو فروغ دیا۔شاہ جہاں کے عہد میں ملا عبدالحق شیرازی کے تلامذہ میں سلطان محمودقریشی ملتانی کے تحریرکردہ بعض خطوط جب شاہ جہان کی نظر سے گزرے تو اس نے ملتان سے ان کو دربار میں بلا لیامگر آپ بھرواپس ملتان آگئے اورملتان کے مکینوں کواپنے فن کے رموز سے آشکارکرتے رہے۔نعمان بن سعید انصاری ہراتی ثم ملتانی کے تحریرکردہ کاشی بخط کوفی آج بھی بعض قدیم ملتان کی مساجدپرموجودہیں۔اکبری دور کے ملا قدیم بن حسن ملتانی بادشاہ اکبر کے کاتب خاص تھے۔اسی دور میں میرعبداللہ ملتانی کی خوشنویسی کا دہلی تک چرچا رہا۔

ملتان میں 13ویںصدی ہجری میں بڑے بڑے خطاط پیداہوئے ۔نواب مظفرخان شہید کے دور گورنری میں فن خطاطی کوملتان میں بہت تقویت ملی۔حضرت حافظ جمال چشتی ملتانی ،حضرت خواجہ خدابخش چشتی ملتانی ،حضرت منشی غلام حسن شہید ملتانی ،حضرت پیر دلیر قادری ملتانی جیسے بزرگوں نے فن خطاطی کونہ صرف عام کیا بلکہ اس کی وسیع اشاعت وترویج کی ۔بذات خودنواب مظفرخان شہید ایک نفیس خطاط تھے اورفن خطاطی میں تمام اسرار ورموز سے واقف تھے۔

حضرت سید عبدالنبی ملتانی شہید کانام صرف جنگ آزادی کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اعلیٰ ذوق کی خطاطی میں مشہورتھا۔مخدوم عبدالہادی مولانا قاضی نورمصطفی قریشی شہید ملتانی، علی مردان قادری ملتانی ،حضرت قاضی عبیداللہ چشتی ملتانی ،خواجہ خدابخش ملتانی ، سید جلال الدین ملتانی نے اپنے مریدین وحلقہ احباب میں فن خطاطی کو پذیرائی بخشی۔ان کے بعد ملتان میں فن خطاطی کوازسرنو عروج حاصل ہوا۔اس میں محمد حسن خان کلیم رقم کا نام تو ناقابل فراموش ہے جنہوں نے ملتان میں خوش خطی و فن خطاطی کی شمع روشن رکھی۔ان کے صاحبزادے ابن کلیم ملتان کے نامور خطاط ہیں۔ابن کلیم کی خطاطی میں تنوع ملتا ہے۔ انہوںنے خط بابری کے قواعد وضوابط کی نوک پلک درست کرکے خط رعنا ایجاد کیا۔یہی انفرادیت ان کوجدید دورکی خطاطی بلندیوں پر لے گئی۔

استاد سلیم چشتی ملتان میں استاد غلام جیلانی کے شاگردتھے۔انہوںنے برصغیر کے ماہرخطاطوں سے استفادہ کیا۔ملتان میں خطاطی کے حوالے سے ایک معتبر نام علی اعجاز نظامی کا تھا ۔ نظامی بنیادی طور پر مصورتھے۔ انہوں نے ملتان میں مصورانہ خطاطی کو فروغ دیا ۔ راشد سیال کا شمار ان خطاطوں میں ہوتا ہے جنہوں نےخطاطی کو کمپیوٹر کے ساتھ ہم آہنگ کیا ۔ اس ظرح انہوں نے اس فن کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑ دیا ۔ آج سے کئی برس قبل جب کمپیوٹر ابھی کتابت کی جگہ لے ہی رہا تھا راشد سیال کا خط خطِ راشد کے نام سے کمپیوٹر کا حصہ بن چکا تھا ۔ ان کی خطاطی کی کئی نمائشیں بھی ہو چکی ہیں۔اسی طرح ابن کلیم کے صاحبزادے محمد مختارعلی بھی خطاطی کی ترویج کے لیے سرگرم ہیں جبکہ ان کے بھائی محمد جمال محسن کراچی میں خطاطی کو فروغ دے رہے ہیں ۔ گویا سرزمین ملتان کویہ فخر حاصل ہے کہ فن خطاطی کی اعلی اقدار کی پاسبانی یہاں ہوتی رہی اور آج بھی ہو رہی ہے۔

ملتان کی قدیم عمارات کے درودیوار پر کتبوں کی صورت میں خطاطی کے جو نمونے موجودہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملتان میں یہ روایت کتنی قدیم ہے ۔ملتان کے نقاشوں،کاشی کاروں اور کنگروں نے بھی خطاطی کی اعلی روایت کومحفوظ رکھنے میں کردار ادا کیا ۔

حضرت بہائوالدین زکریاکی خانقاہ میں جب داخل ہوتے ہیں تو سامنے ایک برآمدہ نظرآتا ہے جس میں سات محرابیں ہیں۔ہرمحراب پر ملتانی روایتی کاشی کاری اور نقاشی وخطاطی کے خوبصورت نمونے جڑے ہوئے ہیں جوکہ کاشی کاری کی نیلی پکی ہوئی کئی کئی اینٹوں کو جوڑ کربنائے گئے ہیں۔حضرت شاہ رکن عالم کے مزار میں تو ایک چوبی محراب اپنی مثال آپ ہے۔اس محراب کی پیشانی پر افقی و عمودی پٹیاں ہیں جن پر نہایت باریک اور نفیس کندہ کاری سے گل کاری ہے جس کے گرداگرد تین اطراف ایک چوڑی پٹی ہے ۔اس پٹی پر دائیں طرف سے آیة الکرسی نہایت نفاست سے خط ثلث وکوفی میں کندہ کاری میں ابھاری گئی ہے۔

ملتان کی قدیم وجدید مساجد کے درودیوار محراب ومنبر پرفن خطاطی کے ایسے نادرنمونے پائے جاتے ہیںجنہیں دیکھ کر انسان عش عش کراٹھتا ہے ۔نواب علی محمد خان ابدالی دور میں ملتان کے گورنرتھے ۔چوک بازار میں ان کے نام سے مسجد ہے اس کی دیواروں پر خط نستعلیق میں فارسی کے اشعار تحریرہیں ۔اٹھارویں صدی کے شروع میں مغل حکومت کی طرف سے عبدالصمد خان ملتان کے گورنر بنے تو انہوں نے ملتان کی عیدگاہ تعمیر کرائی تھی جوآج تک ان کی یاددلاتی ہے۔عیدگاہ کے بیرونی دروازے پر نہایت حسین خط نستعلیق میں اس مسجدکے تعمیر کنندہ کا یادگارکتبہ اب بھی موجود ہے۔

عالمی شہرت یافتہ خطاط راشد سیال گزشتہ 35برس سے اس فن کے ساتھ وابستہ ہیں۔ انہوںنے خوش نویسی سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر خطاطی کے ذریعے دنیا بھر میں نام کمایا۔وہ خطاطی کو کمپیوٹر کے ساتھ جوڑنے والے ملتان کے ابتدائی فن کاروں میں سے ایک ہیں۔ راشد سیال کے فن کی نمائشیں پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میںمنعقد ہوچکی ہیں۔اے پی پی سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میں نے قرآن پاک کی بھی خطاطی کی اور مساجد پر بھی کام کیا۔اب تک میں چارہزار سے زیادہ مساجد کو قرآنی آیات کی خطاطی سے مزین کرچکا ہوں۔اس کے علاوہ میں نے بہت سی کتابو ں کے سرورق بھی بنائے۔میں اپنی بیٹیوں کوبھی اس فن سے روشناس کرارہاہوں لیکن یہ فن اب خطرات سے دوچار ہے۔جس طرح مشینوں نے بہت سے ہنر ختم کیے اسی طرح اس فن کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ ہم کئی دن کی محنت سے جو فن پارے بناتے ہیں۔ وہ ہمارے گھر کا چولہا روشن نہیں رکھ سکتے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے فنون کی حکومت خود سرپرستی کرے ورنہ جیسے اور بہت سے فن معدوم ہوئے خطاطی کا فن بھی کا حصہ بن سکتاہے۔

ملتان میں کاشی کاروں کا ایک ہی خاندان اب کام کررہاہے۔ ایک زمانہ تھا ملتان میں کاشی گروں کے نام سے ایک پورا محلہ آباد تھا۔محلہ کاشی گراں اندرون شہر میں موجودہے لیکن اس محلے میں اب کاشی گر نہیں رہتے۔محمد واجد کاشی کار کا شمار اس شہر کے نامور کاشی گروں میں ہوتاہے۔ ان کاخاندان سات نسلوں سے اس فن کے ساتھ وابستہ ہے ۔اس وقت ان کے خاندان کے 10سے 15لوگ یہ کام کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ وہ دس برس کی عمر سے اس فن کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ان کے والد اللہ ڈیوایا ان کے استاد تھے۔محمد واجد نے بتایا کہ ان کا خاندان محمد بن قاسم کے ساتھ ملتان میں آیا۔

محمد واجد کا کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ قدیمی فن ہے جو پوری دنیا میں پہنچانا جاتا ہے۔ یہ ایک عمدہ فن ہے جسے عوام میں بہت پزیرائی حاصل ہے.انہوں نے بتایا کہ کوٹ مٹھن میں خواجہ غلام فرید ، ملتان میں بہاءالدین زکریا ، ،شاہ رکن عالم سمیت مختلف مزارات پران کے بزرگوں نے کاشی گری کی۔اسی طرح اوچ شریف میں بی بی جیوندی کے مزارپربھی انہی کے خاندان کاکام موجودہے۔ انہوں نے کہاکہ مزارات کی تزئین و مرمت کے موقع پر مجھے ہی بلایا جاتا ہے کیونکہ اب اس فن کے ساتھ اور کوئی خاندان وابستہ نہیں۔ انہوں نے مزید بتایاکہ ملتان اوراسلام آباد کے ہوائی اڈوں پران ہی کی کاشی گری کے نمونے ہیں۔