وفاقی کابینہ ،براڈ شٹ معاملے پر انکوائری کمیٹی قائم،شریف خاندان سمیت 200شخصیات ‘ابتک کیسز رکوانے ‘ معافی دلوانے والے سہولت کاروں کو سامنے لایا جائے گا ، وفاقی وزرا کی پریس کانفرنس

اسلام آباد۔19جنوری (اے پی پی):وفاقی کابینہ نے براڈ شٹ معاملے پر سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی کے قیام کی منظوری دیدی ہے ‘کمیٹی 45دنوں میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی ‘ انکوائری کمیٹی براڈ شیٹ معاملے میں شریف خاندان سمیت کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعہ بیرون ممالک میں اثاثے بنانے والے 200شخصیات ‘ 2000 سے ابتک کیسز رکوانے ‘ معافی دلوانے والے سہولت کاروں کو سامنے لائے گی‘ تمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی ‘ انکوائری کمیٹی جس شخص یا ادارے کو بھی چاہے طلب کر سکتی ہے ‘ براڈ شیٹ نے صرف شریف فیملی کی 850ملین کے اثاثوں کی نشاندہی کی ہے ‘ شریف فیملی نے دنیا میں کرپشن کے میدان میں کرپشن کی ری ماڈلنگ کی ‘ سوئس بنیک ‘ سرے محل ‘ اومنی گروپ ‘ ایوان فیلڈ اپارٹمنٹس کرپشن کی الگ داستانیں ہیں ‘ اپوزیشن دو دفعہ این آر او لے چکی ہے اب تیسرے این آر او کے لئے مارے مارے پھر رہی ہے ‘ پانامہ کی طرح براڈ شیٹ معاملہ بھی عالمی سطح پر بے نقاب ہوا ہے انکی موجد پی ٹی آئی نہیں ہے ‘ شہباز شریف نے 7.34ملین ڈالر نیب میں جمع کرائے بعدازاں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے فیصلے پر نیب نے یہ رقم شہباز شریف کو واپس کر دی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز ‘ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد حسین اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری منگل کو پی آئی ڈی میں مشترکہ پریس کانفرنس کر رہے تھے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد او ر مضافاتی عوام کا شکریہ جنہوں نے پی ڈی ایم سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اپنا وقت بچایا ۔ پی ڈی ایم کی آخری کوشش بری طرح ناکام ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے براڈ شیٹ معاملے پر کا بینہ کی تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا کنونئیر میں جبکہ وفاقی وزرا فواد چوہدری اور شیریں مزاری شامل تھیں ، کابینہ کی اس کمیٹی شفارشات پر انکوائری کمیشن بنایا گیا جو براڈ شیٹ کیس اور فیصلے پر مبنی تحقیقات کر ے گا ‘سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کاریٹائرڈ جج ‘ ایف آئی اے اور سینئر وکیل کمیٹی کے اراکین ہونگے ‘یہ دیکھنا ہوگا لندن ہائیکورٹ نے جو فیصلہ دیا اس میں کون کون سے کردار سامنے آئے ہیں‘ انکوائری کمیٹی کے ٹی او آرز میں تمام چیزیں انوسٹی گیشن میں شامل ہونگی ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ صحافی کی رپورٹ پرشروع ہوا ‘ براڈ شیٹ معاملہ حقائق پر مبنی ثبوتوں کے ساتھ ایک فیصلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ماضی میں کرپشن میں ریکارڈ قائم کرنے والے آج پی ڈی ایم کی چھتری تلے نئے این آر او کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے ماضی میں این آر اوسے مستفید ہو کر ملک کو مزید لوٹا ‘ ماضی کے این آر او میں 20سال کی کرپشن شامل نہیں ہے ‘ ان کرپٹ سیاستدانوں کو 2000سے ابتک کے 20سالوں میں کی گئی کرپشن کا حساب دینا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ اگر ماضی میں ان کرپٹ سیاستدانوں کو این آر او نہ ملتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا کیونکہ ان لوگوں نے بڑے بڑے عہدوں میں آکر لوگوں کو بے وقوف بنا کر انہی کے مستقبل کو تباہ و برباد کیا۔ وفاقی وزیر انسانی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے کہا کہ ایک بات ماننی پڑی گی شریف فیملی آرٹسٹ ہے جنہوں نے کرپشن کو باقاعدہ آرٹ کی شکل دی ہے ‘ دنیا میں کرپشن کی ری ماڈلنگ کرنے پر شریف فیملی کو داد دیتا ہوں ۔انہوں نے کہاکہ مریم کے اعتماد کو بھی داد دیتا ہوں جس نے آج 1000سے 1200کے مجمعے کو لاکھوں کا مجمہ سمجھ کر خطاب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریم تنہا ئی کی اذیت کا شکار ہیں ‘ انھیں لگ رہا تھا کہ عوام ان کے ہاتھ پربیعت کریں گے تو یہ ان کی بھول ہے ‘ مولانا فضل الرحمان بھی اپنی تقریر کو روک کر حکیم کے پاس جا کر ذہنی دبائو کا علاج کرائیں ۔ انہوں نے بتایا کہ 1999میں جنرل پرویز مشرف نے نواز حکومت کو برطرف کر کے مارشل لاءلگایا تو اس وقت نیب کے چیئرمین جنرل امجد سے غضنفر صادق اور طارق فواد ٹرومو کمپنی کی وساطت سے ملے اور انھیں کمپنی کا بروشر دیا جس میں درج تھا کہ یہ کمپنی دنیا میں بنائی گئی جائیدادوں ‘ اثاثہ جات اور اکائونٹس کا کھوج لگانے کی مہارت رکھتی ہے ‘ ان کی کمپنی غیر قانونی طور پر بنائے گئے اثاثہ جات کی مالیت کا 20فیصد بطور فیس وصول کرے گی ‘ جنرل امجد کو یہ آئیڈیا پسند آیا اور انہوں نے اپریل 2000میں امریکہ کے شہر کولورڈو کا دورہ کیا جہاں پر مسٹر جیم اور اسکے ساتھی سے ملاقات ہوئی‘ انہوں نے اپنی کمپنی کا پروفائل سامنے رکھا۔ جب جنرل امجد پاکستان واپس آئے تو اس وقت کے پراسکیوٹر جنرل فاروق اعظم کے ذمہ لگایا کہ اس ڈیل کو قانونی شکل دیں۔ 20 جون 2000 ان کے ساتھ معاہدہ ہوا جس میں طے پایا کہ کمپنی شناخت شدہ اثاثوں کا 20فیصد فیس کے طور پر لے گی ۔ براڈ شیٹ اور آئی اے آر نئی کمپنی تھی جو رشوت کی رقوم سے جائیداد کو ڈھونڈنے کے لئے بنائی گئی تھی ‘ براڈ شیٹ ایشیاء‘ یورپ اورآئی اے آر باقی دنیا میں جائیدادیں شناخت کرنے کی ذمہ داری تھیں۔براڈ شیٹ نے میٹرکس کمپنی کی خدمات حاصل کیں جو کہ پیشہ وارانہ طور پر اکائونٹنڈ اور فرانزک کے کام میں ماہر تھی ۔ میٹرکس کے ایک صاحب نے 2001میں پاکستان کا دورہ کا اور احتساب ادارہ کے حکام سے ملاقات کی ۔ انہوں نے بتایا کہ فروری 2001 میں جب جنرل مشرف نے نواز شریف کے ساتھ این آر او ہوا تو شریف فیملی لڈیاں ڈالتے ہوئے سعودی عرب چلی گئی اس پر براڈ شیٹ نے خط لکھا کہ شریف فیملی باہر جارہی ہے کئی ہمارے پیسے تو نہیں ڈوب جائیں گے تو اس وقت احتساب ادارے کے سربراہ جنرل خالد مقبول چیئرمین نے جواب دیا کہ ابھی سیاسی معاملات چل رہے ہیں آپ کجھ صبر کرلیں ۔ وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین نے بتایا کہ نیب نے 200لوگوں کی فہرست دی تھی‘ ان میں اسحاق ڈار کا نام شامل نہیں‘ اسحاق ڈار کا پوچھا گیا کہ وہ کیوں نہیں ہیں اس فہرست میں تو کہا گیا کہ وہ نیب کی بہت مدد کر رہے ‘ اسحاق ڈار اس دور میں نواز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ مئی 2001 میں کمپنی کے نمائندہ بائیڈن پاکستان آئے اور 5ہائی پروفائل شخصیات بارے بریفنگ دی‘ 28اکتوبر 2003کو نیب سے معاہدہ ختم کرنے کا نوٹس دیا ۔ انہوں نے کہا کہ 2000میں شہباز شریف 7.34ملین ڈالر نیب کو دیئے جو کہ 70لاکھ ڈالر بنتے ہیں جب چیف جسٹس افتخار چوہدری تھے تو انہوں نے عدالت کے اندر نیب سے 7.34ملین ڈالر شبہاز شریف کو واپس کرائے ۔انہوں نے بتایا کہ معاہدہ یک طرفہ ‘ختم کرنے پر ثالث¸عدالت کے حکم پر 5ملین ڈالر پاکستان کو ادا کرنا پڑے ۔وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین نے کہا کہ برطانیہ کی ثالثی عدالت کا فیصلہ2016 میں خلاف آیا لیکن پاکستان میں اس فیصلے کی کوئی خبر نہیں آئی‘ اٹارنی جنرل ‘ حکومت یا کسی سفارتخانے نے جے آئی ٹی کو یہ اطلاع نہیں دی ‘ خبر روک لی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ یو کے ‘ سعودی عرب اور دیگر ممالک میں جائیدادوں کی نشاندہی کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے 76جائیدادوں کی نشاندہی کی ‘ بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جن کو آگے نہیں بڑھایا گیا جس میں 160 ملین ڈالر لاہور اسلام آباد موٹر وے کے ہیں جس کی ادائیگیاں کسینو میں کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ثابت ہوا کہ شریف فیملی کرپشن کے آرٹسٹ ہیں ‘پیسہ پاکستان سے باہر لیکر گئے‘ نیب کی ذمہ داری ہے کہ مقدمات کو منطقی انجام تک لیکر آئے ۔وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ براڈ شیٹ ‘ ٹروا ‘آئی آر اے کی فائنڈنگ کے مطابق شریف فیملی کی شناخت شدہ جائیدادوں کی قیمت 850ملین ڈالر سے زائد کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ پہلے جبکہ براڈ شٹ 2016کی خبر اب نکلی ہے ‘ مریم ‘آپ نے دو این آر او لے لئے ‘تیسرے این آر او کے لئے تڑپ رہی ہیں ۔ انہوں نے مریم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک دفعہ عدالتی فیصلے کو پڑھ لیں ‘اگر انگریزی کا مسئلہ ہے تو اردو ترجمہ کراکے بھیج سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومت اور اداروں کو استعمال کیا گیا‘ نیب کی تحقیقات روکیں گئیں ‘ کن چوروں کو فائدہ ملا ‘ یہ تحقیقات کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ نے انکوائری کمیٹی 45دنوں میں تحقیقات مکمل کرے گی ‘انکوائری کے ٹی او آر بن گئے ہیں ‘تا کہ نیب معاہدے ‘خامیاں‘ سہولت کاروں کو سامنے لایا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ شریف فیملی کے خلاف بار بار ثبوت آگئے ‘شک و شبہ کی گنجائش نہیں کرپشن ‘منی لانڈرنگ ثبوتوں کے ساتھ سامنے آچکی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے ملک کو غریب کرنے کی کوشش کی ہے ‘ لوٹ گھسوٹ منی لانڈرنگ پیسہ لگتا ہے پاکستان امیر ملک ہے ‘ شرم کی بات ہے مریم نواز کہتی ہے کہ پی ٹی آئی کو ہندوستان اور اسرائیل سے پیسہ آیا‘ حقیقت تو یہ ہے کہ نواز شریف ہندوستان فیملی کے ساتھ گئے ‘ان کی شادی پر اجیت اوول آیا ‘ دہلی دورہ پر نواز شریف نے بھارتی حکومت کی خواہش پرآل پارٹیز حریت کانفرنس قیادت سے ملاقات نہیں کی ‘ مولانا فضل الرحمان نمائندے اسرائیل گئے‘قوم سمجھدار ہے کس نے لوٹا ہے کس نے ہندوستان سے معاہدے کیے ‘ مریم بی بی اور مولانا جھوٹ بولنا بند کر دیں ‘کچھ شرم و حیا کریں ۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں وقت لگتا ہے ‘حالات خود بخود ساز گار ‘براڈ شیٹ کو پی ٹی آئی نے بے نقاب نہیں کیا اور نہ ہی پانامہ پی ٹی آئی لے کر آئی تھی ۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے مر کزی کرداروں کے خلاف ‘سرے محل ‘سوئس بینک ‘ اومنی گروپ کیسز چل رہے ہیں ‘پیپلز پارٹی بھی ریڈار پر ہے ‘ ہدف ہوگا کہ یہ پیسے واپس آئیں ۔ انہوں نے کہا کہ مولانا نے کہا کہ جس ریاست کا حصہ نہیں وہ ریاست نامکمل ہے ‘وہ حقیقت میں ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں ‘ انھیں ہمیشہ خالی کرسیوں سے خطاب کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان کا کوئی کاروبار ہے اور نہ ہی بیرون ممالک میں جائیدادیں ہیں ‘پارٹی کے اندر یا باہر جو بھی کرپشن کے مرتکب ہوئے انھیں منطقی انجام تک پہنچائیں گئے ‘ ہمارے وزیر کے خلاف کیسز درج ہوئے اور 20 ایم پی ایزکو پی ٹی آئی سے نکالا گیا ۔