23.2 C
Islamabad
اتوار, اپریل 20, 2025
ہومقومی خبریںپاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں، ہم کسی...

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں، ہم کسی دہشت گرد تنظیم یا اس کے سربراہ کی کبھی حمایت نہیں کر سکتے ،افغان مسئلے کا حل افغانوں نے خود کرنا ہے،وزیر خارجہ

- Advertisement -

اسلام آباد۔21جون (اے پی پی):وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں، ہم کسی دہشت گرد تنظیم یا اس کے سربراہ کی کبھی حمایت نہیں کر سکتے ،ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں،ہم نے ہر فورم پر مصالحانہ کردار ادا کیا،افغان مسئلے کا حل افغانوں نے خود کرنا ہے،اگر افغانستان 90 کی دہائی میں جاتا ہے تو دبائو پاکستان پر یقینا ً بڑھ سکتا ہے اور افعان مہاجرین کی تعداد بڑھ سکتی ہے، مودی سرکار کی جانب سے 24 جون کو اجلاس کو بلانا اہم پیشرفت ہے۔

پیر کو قومی ادارہ صحت میں تقریب سے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ آج این آئی ایچ میں جس طرح ڈپلومیٹک کور کیلئے ویکسینیشن کا اہتمام کیا گیا وہ قابل ستائش ہے ۔افغانستان کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی حکمت عملی واضح ہے،ہماری خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو،ہم نے ہر فورم پر مصالحانہ کردار ادا کیا،ترکی میں 44 کے قریب وزرائے خارجہ اور دس کے قریب سربراہان مملکت موجود تھے،آج دنیا بھر میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کو سراہا جا رہا ہے۔

- Advertisement -

انہوں نے کہا کہ مجھے افغان وزیر خارجہ حنیف آتمر اورسابق افغان وزیر خارجہ اور اعلیٰ سطحی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے ملاقات اور افغان امن عمل پر بات چیت کا موقع ملا،ان کی گفتگو میں مجھے تشویش اور فکر دکھائی دی۔انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان 90 کی دہائی میں جاتا ہے تو پاکستان پر یقینا ً دبائو بڑھ سکتا ہےاور افعان مہاجرین کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔میں نے افغان وزیر خارجہ سے کہا کہ ہم امن کی کاوشوں میں شراکت دار ہیں لیکن شراکت داری کیلئے اعتماد کا ہونا ضروری ہے،اگر امریکہ جا کر آپ نے ماضی کا راگ الاپنا ہے تو آپ کو اور خطے کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔

انہوں نے کہا کہ میری ترکی میں تاجکستان، ازبکستان کرغزستان، کویت اور قطر کے وزرائے خارجہ سے ملاقات ہوئی،سب سیاسی حل کی بات کر رہے ہیں۔غیر ملکی فوج کے انخلا ء سے متعلق وزیر خارجہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء 60 فیصد مکمل ہو چکا ہے اور ابھی سلسلہ جاری ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں کیونکہ افغانستان کے امن سے ہمارا مفاد جڑا ہوا ہے،افغانستان میں قیام امن سے ہمارا روابط کے فروغ اور معاشی استحکام کا خواب مکمل ہو سکتا ہے،تاہم افغان مسئلے کا حل افغانوں نے خود کرنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت دو سوچیں کارفرما ہیں،ایک طبقہ اسلامک امارات آف افغانستان اور دوسرا ری پبلک آف افغانستان بنانا چاہتا ہے،فیصلہ افغان قیادت کو کرنا ہے اور امتحان افغان قیادت کا ہے۔ہماری دعا ہے کہ وہ اس امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہوں لیکن ایک طبقہ اپنی ناکامیوں سے فرار کی کوشش میں مصروف ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کا مقصد افغانستان میں بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورک کی بیخ کنی تھا اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان اس بات کا معاہدہ ہونا کہ وہ افغان سر زمین کو کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے یہ بھی پیشرفت ہے ۔انہوں نے افغان آرمی کو ٹریننگ دی اور ان کا انفراسٹرکچر کھڑا کیا ،اب افغان حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ اپنا دفاع خود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری سوچ واضح ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہت سی جانی و مالی قربانیاں دی ہیں ہم کسی دہشت گرد تنظیم یا اس کے سربراہ کی کبھی حمایت نہیں کر سکتے ۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں پاکستان کا ترجمان اور نمائندہ ہوں میں ہمیشہ پاکستان کی بات کروں گا،طالبان کے اپنے ترجمان ہیں۔ میں نے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے الزامات کا جواب بطور پاکستانی دیا،بطور وزیر خارجہ میرا جواب دینا بنتا ہی نہیں۔انہوں نے کہا کہ کوئی میری قوم کی توہین کرے تو میں کیسے خاموش رہ سکتا ہوں؟پوری پاکستانی قوم نے ان الزامات کو مسترد کیا اور بہت سے افغانوں نے بھی ان کے بیانات کو مناسب نہیں سمجھا۔

غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اپنی رائے میں، مودی سرکار کی جانب سے 24 جون کے اجلاس کو غیر معمولی پیشرفت سمجھتا ہوں،کشمیریوں نے 5 اگست 2019 کے بھارتی اقدامات غیر قانونی اور یکطرفہ کو یکسر مسترد کیا ہے۔محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ بھارت سرکار کے ساتھ اقتدار میں شریک رہے لیکن انہوں نے بھی 5 اگست کے اقدامات کو تسلیم نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے اقدامات سے ہندوستان کی سیکولر ساکھ کو نقصان پہنچا جبکہ ان اقدامات کے بعد کشمیر کی سیاحت اور معیشت تباہ ہو گئی۔کورونا وبا کے دوران کشمیری دوہرے لاک ڈائون کو بھگت رہے ہیں،اس بیک گرا ئونڈ میں یہ اجلاس بلانا قابلِ غور ہے،درپردہ اجلاس بلائے جانے میں یہ اعتراف پنہاں ہے کہ سب ٹھیک نہیں ہے تاہم 24 کو اصل حقائق اور صورتحال سامنے آئے گی،ابھی اس پر رائے دینا قبل از وقت ہو گا۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=258895

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں