کراچی۔28جنوری (اے پی پی):مذہبی رواداری اور مثالی بھائی چارے کے قیام کے لئے علماء کرام اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہنماوں نے مختلف تجاویز پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس پر عمل کرنے سے روادری اور بھائ چارے کے ماحول کو قائم کیا جاسکتا ہے ۔ جمعرات کو وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام ایک روزہ بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس بعنوان ” باہمی مذہبی احترام دور حاضر کی ضرورت ” کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کی جبکہ کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور دیگر مذاہب کے رہنماوں نے شرکت کی ۔ جاری مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ کانفرنس کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی کا فروغ اور پرچار ہے ۔ جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کے علاوہ مختلف مذاہب کے رہنماؤں نے نہ صرف خطاب کیا بلکہ آج کے عنوان کے حوالے سے قابل قدر تجاویز پیش کیں۔ آج کی اس نشست میں انہوں نے مذہبی رواداری، ہم آہنگی اور برداشت کے قیام کے حوالے سے مختلف مذاہب میں پائے جانے والے ایسے مشترکات کو تلاش کیا جو تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لئے قابل قبول ہوں جن میں سب کے مذہبی جذبات کا لحاظ رکھا گیا ہو اور جن پر عمل پیرا ہوکر پاکستان اور دنیا امن و سلامتی اور مذہبی رواداری کا ایسا منظر پیش کرنے لگے جس کا ہم سب کو انتظار ہے۔ ان تجاویز کی روشنی میں ایک مشترکہ اعلامیہ ترتیب دیا گیا ہے اور تمام علماء اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اگر درج ذیل نکات کا خیال رکھا جائے تو تمام مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذہبی رواداری اور مثالی بھائی چارے کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔ 1،ایک دوسرے کے مذہبی قائدین اور عبادت گاہوں کا احترام ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ نیز مذہبی قائدین ایسے اشتعال انگیز بیانات اور تحریروں سے احتراز کریں جن سے دوسروں کی دل آزاری ہوسکتی ہو۔2 ،مذہبی تنازعات اور اختلافات کو باہم مشوروں، افہام و تفہیم اور سنجیدہ مکالمے کی روشنی میں طے کیا جائے۔ 3،تمام مذہبی اکابرین کے لئے لازمی تربیتی پروگرام تشکیل دئیے جائیں جس کے ذریعے انہیں دیگر مذاہب کی بنیادی معلومات حاصل ہوں۔4،تمام مذاہب کے اکابرین اور اسکالرز کو مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی ہم آہنگی کے لئے ایک دوسرے کی عبادت گاہوں مثلاً مدارس، مساجد، مندروں، گرجا گھروں اور گردواروں کے دورے کرنے چاہئیں۔ 5 ۔مدارس، اسکول، کالج اور جامعات میں بقائے باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے پرامن معاشرے کے قیام کے لئے تمام مذاہب کی کتابوں سے ایسا نصاب ترتیب دیا جائے جو بقائے باہمی کی دعوت دے اور حکومت کے ذریعے اس کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ 6، اقلیت کا لفظ ایک ایسے امتیازی تاثر کا حامل ہے جس سے کسی کے مقام کے کم تر ہونے کا پہلو ابھرتا ہے۔ اس لفظ کے بجائے تمام مذاہب کے لئے کوئی موزوں متبادل لفظ ہونا چاہئے۔7،دور حاضر میں میڈیا کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے لہذا مناسب قانون سازی کے ذریعے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو بین المذاہب ہم آہنگی کی مہم چلانے پر آمادہ کیا جائے، نیز ان میں موجود نفرت انگیز مواد جس میں کسی بھی مذہبی جماعت یا برادری کی مسخ شدہ صورت پیش کی ہو اس نفرت انگیز مواد کو ضبط اور تلف کیا جائے۔8، تمام مذاہب کی تعلمیات، مذہبی رواداری، عدم تشدد، احترام انسانیت اور انسانی جان کی حرمت کا درس دیتی ہیں، لہذا اہل مذاہب کو ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ 9، میثاق مدینہ اور قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے ممبران سے کی گئی تقریر میں دئیے گئے بین المذاہب ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے روشن اصولوں کو نافذ کیا جائے تاکہ پاکستان میں پائے جانے والے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ 10،اس کانفرنس کے شرکاء یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں، وفاق کی قومی پالیسی برائے بین المذاہب ہم آہنگی میں شمولیت اختیار کریں۔ 11،وفاق کی طرز پر صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ اقلیتوں کے مذہبی تہواروں کو سرکاری سطح پر منایا جائے تاکہ مذہبی ہم آہنگی فروغ پاسکے۔ 12،پیغام پاکستان اہم قومی بیانیہ ہے جو کہ مذہبی ہم آہنگی کو درست سمت کی طرف لے جا رہا ہے، پیغام پاکستان ہر گھر اور ہر ہر فرد تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔13،پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ میں احترام مذاہب عالم اور احترام انسانیت کی قرار داد منظور ہونا پاکستان کی ایک عظیم فتح ہے جس نے آج ساری دنیا کو اہم پیغام دیا ہے۔