اسلام آباد۔9جون (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ رواں ماہ معاہدہ ہونے کی توقع ہے، پوری دنیا میں اس وقت مہنگائی اپنے عروج پر ہے، سابق حکومت نے معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا، مہنگائی کے بے پناہ بوجھ تلے دبے عام آدمی کو ریلیف دینا حکومت کی ذمہ داری ہے، زرعی شعبے میں خوشحالی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں، معیشت کی ترقی سیاسی استحکام سے وابستہ ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ارکان کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے بطور مشیر وزیراعظم تعیناتی پر شیخ روحیل اصغر کو بھی مبارکباد دیتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ وہ محنت اور تندہی سے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔
وزیراعظم نے کابینہ کو بتایا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گذشتہ روز معیشت کی صورتحال پر پریس کانفرنس میں اظہار خیال کیا ہے، یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ 14 ماہ قبل جب ہم نے ذمہ داری سنبھالی تو ہمارے سامنے بڑے معاشی چیلنجز تھے، گذشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا خود ہی اس کی دھجیاں اڑا دی تھیں اور خود ہی اس کی خلاف ورزی کی، ہم نے بڑی مشکل سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ گذشتہ سال ماحولیاتی آلودگی کے باعث تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس نے معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچایا، اس کے باوجود سیلاب زدگان کی بحالی اور ریلیف کیلئے کابینہ کے متعلقہ ارکان اور وفاقی و صوبائی حکومتوں نے پوری تندہی سے دن رات ایک کر دیا، بین الاقوامی اداروں سے بھی مدد لی گئی اور وفاق اور صوبوں نے اپنے وسائل سے اربوں روپے خرچ کئے، وفاق نے سیلاب زدگان کیلئے 100 ارب روپے خرچ کئے، دوست ممالک نے ہمارا ساتھ دیا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے ان کی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یوکرین میں پیدا ہونے والی صورتحال سے عالمی منڈیوں میں ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں، دنیا میں کساد بازاری کا رجحان رہا جس کا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو اربوں ڈالر زائد ادا کرنے کی صورت میں نقصان ہوا خواہ وہ تیل کی قیمتوں کا معاملہ ہو یا کھاد، گندم اور کپاس کا، ہر لحاظ سے ہم پر بوجھ میں اضافہ ہوا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو من و عن نہ صرف تسلیم کر لیا بلکہ ہم نے اس سلسلہ میں پوری طرح ابتدائی اقدامات بھی کئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول ایگریمنٹ پر ابھی تک دستخط نہیں کئے گئے جس کے بعد بورڈ میں یہ معاملہ جانا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ امید کی جانی چاہئے کہ تمام شرائط پوری کرنے کے بعد رواں ماہ آئی ایم ایف کا نائنتھ ریویو مکمل ہو کر بورڈ سے اس کی منظوری ہو جائے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ان کی آئی ایم ایف کی ایم ڈی کے ساتھ ایک گھنٹہ ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی جس کے نتیجہ میں، میں یہ بات کہہ رہا ہوں۔ میں نے انہیں تجویز دی تھی کہ اگر آپ یقین دہانی کرائیں تو مزید جو ایک دو ضروری اقدامات ہیں ہم وہ بھی کریں گے۔ انہوں نے مجھے زبانی کمٹمنٹ دی جس کے نتیجہ میں ہم نے وہ اقدامات بھی کر لئے ہیں لہٰذا اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں نے جو مسائل آپ کے سامنے رکھے ہیں اس سے پاکستان کے عام آدمی کے اوپر مہنگائی کا بے پناہ بوجھ پڑا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں اس وقت مہنگائی سکہ رائج الوقت ہے، چاہے وہ برطانیہ ہے یا امریکہ، ہر جگہ مہنگائی ہے لیکن ان کی معیشت میں اتنی سکت ہے کہ وہ اپنے عوام کو ریلیف دے سکتے ہیں لیکن جب ہم نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی تو پچھلی حکومت معیشت کا جنازہ نکال چکی تھی، ان 14 مہینوں میں جو مشکلات ہم پر آئیں وہ میں نے بیان کی ہیں،
اس دوران ہمارے دیرینہ اور بااعتماد دوست چین نے ہماری بھرپور مدد کی، ہمیں مالی تعاون فراہم کیا اور پچھلے دو تین ماہ میں چینی حکومت کا تعاون انتہائی مددگار ثابت ہوا اس کی تفصیل میں، میں نہیں جا رہا، آئی ایم ایف کے حوالے سے اپنے برادر ملک سعودی عرب اور یو اے ای نے ہمارا ہاتھ تھاما اور آئی ایم ایف کی جو اضافی شرائط تھیں ان کے مطابق سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر اور یو اے ای نے ایک ارب ڈالر کا تعاون فراہم کیا اور آڑے وقت میں ہماری بہت مدد کی جس پر ہم ان کے بے حد شکرگزار ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے سامنے چیلنج یہ ہے کہ مہنگائی نے غریب آدمی پر بے پناہ بوجھ ڈالا ہے، ہماری اقتصادی ترقی جس رفتار سے ہونی چاہئے تھی وہ شدید متاثر ہوئی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ کا بے پایاں فضل و کرم ہے کہ جاری خسارہ کے حوالے سے پچھلے مہینوں میں بہتری آئی ہے اور یہ کم ہو کر 3.3 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے وسائل پر بہت بوجھ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بجٹ کی تیاری میں برآمد کنندگان، کاروباری طبقہ، آئی ٹی ماہرین سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے مشاورت کی گئی ہے، میں نے خود اس سلسلہ میں ملاقاتیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں زرعی شعبے میں بہت جلد اچھے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں، صرف اس بات پر خوش ہو جانا کہ کسان کو گندم کی اچھی قیمت ملی ہے تو اس لئے اچھی فصل ہوئی ہے، یہ صحیح نہیں، یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف ممالک کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے کئی گنا زیادہ ہے،
ہمیں اس سلسلہ میں پیشرفت کا جائزہ لینا ہو گا کیونکہ ہم ماضی میں اس سلسلہ میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکے، گندم، گنا، کپاس اور مختلف دوسری فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے، ہمیں اس سلسلہ میں سرمایہ کاری کرنا ہو گا اور دیہی علاقوں، قصبوں میں زرعی اجناس پر مبنی ویلیو ایڈڈ چینز قائم کرنا ہوں گی، آم کی فصل کو بہتر سٹوریج کی سہولیات فراہم کرکے محفوظ کیا جا سکتا ہے، زرعی پیداوار کی ویلیو ایڈیشن کی جا سکتی ہے، زرعی شعبے میں اربوں ڈالر کی برآمدات کے امکانات موجود ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ زراعت پر توجہ دے کر زرعی علاقوں میں خوشحالی لائی جا سکتی ہے، نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اس سلسلہ میں بہت سے اقدامات کر رہی ہے، اس بارے میں متعلقہ وزراء قوم کو آگاہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں معیشت کی ترقی سیاسی استحکام کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے، جس ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا وہاں معیشت تباہ ہو جاتی ہے، پاکستان میں پچھلے سوا سال سے جو سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے اور اس کیلئے جو ذرائع پیدا کئے گئے اور جو بیانیہ اختیار کیا گیا اور جس طرح جتھے بندی کی گئی اس سے اس ملک میں سیاسی طوفان آیا، جس نے معیشت کے پہیے کو جام کیا، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری تقریباً ختم ہو کر رہ گئی، ملک کے اندر سرمایہ کاری رک گئی، صنعتیں بھی متاثر ہوئیں، سیاسی استحکام کے بغیر کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس سیاسی استحکام لانے کیلئے ہم سب یکسو ہیں، ریاست پاکستان اور ادارے اس سلسلہ میں یکسو ہیں، سیاسی استحکام لائیں گے تو معاملہ آگے چلے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ عام آدمی اس صورتحال میں پس کر رہ گیا ہے، اس کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ نہ کیا گیا تو نامساعد حالات کا سامنا نہیں کر سکے گا اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کا خیال کریں تاکہ یہ طبقہ اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کی ذمہ داری پوری کر سکے، اسی طرح پنشنرز کی پنشنز بھی افراط زر کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہیں، ہمیں پنشنرز کا بھی خیال کرنا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کابینہ کے ارکان کی رائے کی روشنی میں حکومت فیصلے کرے گی، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے گندم کی بمپر کراپ ہوئی ہے، کپاس کی فصل بھی بڑے پیمانے پر کاشت کی گئی ہے، ہم اﷲ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں کہ وہ کرم فرمائے گا، دنیا میں گیس کی قیمتیں نیچے آ رہی ہیں، ہم گیس کا نیا کنٹریکٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ماضی کے مقابلہ میں اگر کم قیمت پر گیس خریدی جائے تو اس کی اوسط قیمت کو کم کیا جا سکتا ہے جس سے ملک میں اقتصادی پہیہ تیزی سے چلے گا۔