آئین پاکستان عوام کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے’ پاکستان کا ہر شہری اور ملک میں رہنے والا ہر شخص آئین کے تابع ہے’ قانون و انصاف معاشرے کی بقا کے ضامن ہیں ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

143
آئین پاکستان عوام کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے' پاکستان کا ہر شہری اور ملک میں رہنے والا ہر شخص آئین کے تابع ہے' قانون و انصاف معاشرے کی بقا کے ضامن ہیں ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد۔19اپریل (اے پی پی):سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آئین پاکستان عوام کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے’ پاکستان کا ہر شہری اور ملک میں رہنے والا ہر شخص آئین کے تابع ہے’ آئین ہر شہری کی دستاویز ہے’ قانون و انصاف معاشرے کی بقا کے ضامن ہیں ‘ انصاف اور حقوق کے لئے عدالتیں ہی ہوتی ہیں’ ماضی میں آئین پر بڑے وار کئے گئے ‘آمروں نے خود کو تحفظ دینے کے لئے آئین میں ترامیم کیں لیکن آئین کا حوصلہ ہے کہ آج بھی قائم و دائم ہے’تاریخ سے سیکھنے کی ضرورت ہے اگر تاریخ سے نہ سیکھا جائے تو یہ خود کو دہراتی ہے’ کوئی بھی ناانصافی زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی ‘ زندہ معاشرے میں اختلاف رائے ہوتا ہے اگر سب تائید میں سر ہلائیں تو یہ آمریت اور بادشاہت ہوگی۔ جب تک لوگ آئین نہیں سمجھیں گے ‘ اس کی قدر نہیں ہوگی۔وہ بدھ کو شفا تعمیر ملت یونیورسٹی کے زیر اہتمام آئین پاکستان کی 50 ویں سالگرہ کی مناسبت سے ”آئین پاکستان’ قومی وحدت کی علامت” کے موضوع پر سلسلہ خطبات کے تحت خطاب کررہے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آئین پاکستان کی 50 ویں سالگرہ منا رہے ہیں’قیام پاکستان کے بعد سب سے زیادہ ضرورت آئین کی تھی۔انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد سات سال قانون ساز اسمبلی کام کرتی رہی’ مختلف مراحل طے کرتے ہوئے بالآخر 1973 کا آئین تشکیل پایا ‘آئین ایک تحفہ ہے ‘آئین عوام کی رائے کو اہمیت دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں آئین پر کئی وار کئے گئے لیکن وہ آج بھی کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ سے سیکھنا چاہئے ورنہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ تاریخ ہمیں بار بار سبق دے چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے آئین کے تحفظ اور پاسداری کا حلف اٹھایا ہے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کا ہر شہری اور ملک میں رہنے والا ہر شخص آئین کے تابع ہے۔ آئین ہر شہری کی دستاویز ہے اور جب تک لوگ آئین کو نہیں سمجھیں گے تو اس کی قدر نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ قانون وانصاف معاشرے کی بقا کے ضامن ہیں اور انصاف اور حقوق کے لئے عدالتیں ہی ہوتی ہیں ‘ انہوں نے کہا کہ زندہ معاشرے میں اختلاف رائے ہوتا ہے’ ہمیں اس کا احترام کرنا چاہئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جو کام آج کرتے ہیں اس کے اثرات صدیوں بعد تک ہوتے ہیں ‘ اس لئے ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آئین کی کتاب صرف پارلیمان نہیں بلکہ لوگوں کیلئے بھی اہم ہے، اس میں لوگوں کے حقوق ہیں، آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس کا وہ مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہیے جھوٹ اور بداخلاقی کے نتائج کیا نکلتے ہیں، دسمبر 1971 میں پاکستان ٹوٹ گیا، یہ ملک اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ اس کے لئے بیج بوئے گئے اور جو بیج بویا گیا اس نے ملک کے 2 ٹکڑے کر دیئے، 1971میں قوم کا سر جھکا ہوتا تھا اور قوم شرمندہ تھی۔ پاکستان ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ غلط فیصلہ تھا، 1962 کے آئین میں جمہوریت کو ختم کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پھر 4 جولائی1977 کوایک شخص نے جمہوریت اور آئین پر وار کیا اور اس شخص نے 11 سال حکومت کی، پھرجہاز کے حادثے میں اس کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ12 اکتوبر 99 میں ایک اورشخص نے آئین کو پامال کیا اور پھر خود ہی اپنے آپ کو آئینی تحفظ بھی دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈکٹیٹر آنے کے کچھ عرصے بعد سمجھتا ہےکہ وہ تو اصل میں جمہوریت پسند ہے، ڈکٹیٹر ریفرنڈم کراتا ہے اور نتائج 98 فیصد تک پہنچ جاتے ہیں، ریفرنڈم کےبرعکس پاکستان میں زور وشور سے ہونے والے الیکشن کے نتائج کبھی60 فیصد سے زیادہ نہیں آتے۔جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگرکوئی فیصلہ غلط ہے تو وہ غلط ہی رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ نے ہمیں سکھانے کے لیے کئی مرتبہ اپنے آپ کو دہرایا، 1958، 1977، 1993، 1993، 1999 میں بھی تاریخ پکارتی رہی کہ سیکھو، تاریخ ہمیں سات سبق دے چکی ہے اور کتنی بار سکھائےگی، آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملےگا۔ انہوں نے کہا کہ ہر شہری آئین پاکستان کی کتاب کا پابند ہے، اس پر بڑے وار ہوئے لیکن اس نے حوصلہ دکھایا اور ہمیں بھی بحثیت قوم اپنا حوصلہ دکھانا چاہیے۔ خطاب کے بعد سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین میں 184 تین کا لفظ استعمال ہوا ہے، آرٹیکل 184 تین سپریم کورٹ کو شرائط کے ساتھ اختیار دیتا ہےکہ مفاد عامہ اوربنیادی حقوق کے نفاذ کے لیےکوئی کام کیا جائے، 184 تین کی شق ان مظلوموں کے لیے رکھی گئی تھی جو عدالت تو دور وکیل تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔184 تین کو کسی فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، لازم ہے کہ اس شق کو استعمال میں لاتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے، میری رائے کے مطابق 184 تین کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہےجبکہ میرے بعض دوستوں کی رائے ہےکہ سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم پر آئین کے حوالے سے زیادہ ذمہ داری ہے، ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین کا دفاع اور حفاظت کریں گے، جب تک لوگ آئین کو نہیں سمجھیں گے اس کی قدر نہیں ہوگی، ظالم کہتا ہے میری مرضی، آئین کہتا ہے لوگوں کی مرضی، زندہ معاشرے میں اختلاف رائے ہوتا ہے، سب تائید میں سر ہلانا شروع کردیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائےگی ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں آئین میں آرٹیکل 58 ٹوبی کی شق ڈالی گئی کہ جب دل کرے منتخب حکومت کوبرطرف کرسکیں، 18 ویں ترمیم میں 58 ٹو بی کو ختم کیا گیا صوبوں کو اختیارات دیے گئے۔