آرٹیکل 9 کے تحت شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے،سستا اورفوری انصاف اولین ترجیح ہے،چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطابندیال کاانٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب

677

اسلام آباد۔23ستمبر (اے پی پی):چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سستا اور فوری انصاف ہماری ترجیح ہے، عدلیہ آئین اور قانون کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے، آرٹیکل 9 کے تحت شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں، قانون کی حکمرانی عدلیہ کا فوکس ہے، کمزور اور پسے ہوئے طبقہ کے حقوق کو عدلیہ نے اپنے فیصلوں سے محفوظ کیا، مذہبی ہم آہنگی اور اقلیتوں کے تحفظ کیلئے عدلیہ نے وفاقی حکومت کو احکامات جاری کئے،

نظام انصاف میں بہتری لانے کیلئے ایگزیکٹو سمیت تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہیں، سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ بار کے فیصلہ سے نظریہ ضرورت کا راستہ بند کر دیا ہے، سپریم کورٹ نے اسمبلی کی تحلیل اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا، ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی نے آئین سے متصادم رولنگ دی، عدالت نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر آئین کا نفاذ کیا،سیاسی قیادت کو سیاسی استحکام کیلئے مذاکرات کرنے ہوں گے، سیاسی مسائل کا حل مذاکرات سے ہی نکل سکتا ہے،

موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ نے ٹرانسجینڈرز کو شناختی کارڈز جاری کرنے کا فیصلہ دیا، عدلیہ نے اقلیتوں کے حقوق سمیت سکولوں سے متعلق اہم فیصلے دیئے، عدلیہ نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے، عدلیہ نے جمہوری بالادستی کے لئے اہم فیصلے دیئے۔ ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے جمعہ کو یہاں لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ 9 ویں انٹر نیشل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

قبل ازیں کانفرنس کا آغاز سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں قاری عبد الباسط کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ کانفرنس کی میزبانی کے فرائض سعد رسول نے ادا کئے۔ کانفرنس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز کے علاوہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز، چیف جج گلگت بلتستان، چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر، غیر ملکی سفارتکاروں، وفاقی وزیر قانون، ڈسٹرکٹ جوڈیشری سمیت وکلاء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کے آغاز میں سیلاب متاثرین سے اظہار یکجہتی کے طور پر ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔

چیئرمین آرگنائزنگ کمیٹی جسٹس امین الدین خان نے خطبہ استقبالیہ دیتے ہوئے بتایا کہ کانفرنس کا مقصد دنیا کے عدالتی آئیڈیاز کو شئیر کر کے عدلیہ اور سائلین کے درمیان فاصلوں کو کم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف وہ ہوتا ہے جو کمرہ عدالت سے باہر نظر آئے۔ عدالت کے اندر ہونے والی کارروائی کا باہر ہونے والی تشریح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایگزیکٹو کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔

عدلیہ کو یقینی بنانا ہے کہ قانون کی نظر میں کسی شخص کے ساتھ امتیازی سلوک نا ہو۔ ججز کی تعیناتی عدلیہ کی جانب سے آزادانہ طور پر ہونی چاہئے۔ ججز کو سیاسی معاملات پر پبلک میں گفتگو کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ چیف جج گلگت بلتستان وزیر شکیل احمد نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ گلگت بلتستان کی اپیلیٹ کورٹ میں خالی آسامیوں پر ججز تعینات کیے جائیں۔ گلت بلتستان کے ججز کی تعیناتی مراعات اور پنشن کو ریگولرائز کیا جائے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ امن و امان کے قیام میں عدلیہ کا کردار بہتر کرنے کیلئے ہائیکورٹ کے ججز سے مشاورت کی۔ بطور ادارہ ہائیکورٹ میں بھی کمی و کوتاہی ہو گی۔ عدلیہ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت منتخب سیاسی نمائندگان کو نااہل بھی کیا۔ تاریخ اچھے اور برے تمام فیصلوں کو یاد رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری عدلیہ اپنی غلطیوں کو نہ دہرائے۔ بہت سے لوگ عدلیہ کو طاقت ور حلقوں میں شمار کرتے ہیں۔

طاقت ذاتی مقاصد کیلئے نہیں بلکہ عوامی مفاد کیلئے ہوتی ہے۔ تمام ججز آئین اور اپنے حلف کی پاسداری کریں تو مسائل ختم ہو جائیں گے۔ پارلیمنٹ سپریم ہے عدلیہ ہمیشہ پارلیمان کا احترام کرتی ہے۔ عدلیہ میں زیر التوا مقدمات کا بوجھ ہے۔ عدلیہ کی کارکردگی پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کاروائی نہیں کرتے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بہتری لانے کیلئے عوامی رائے لینے کا آغاز کیا ہے۔

ایک سول جج صبح آٹھ بجے سے لیکر شام تک کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایگزیکٹو اپنا کام بہتر کریں تو عدالت کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ نظام انصاف میں بہتری لانے کیلئے ایگزیکٹو سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ آئین پر حلف اٹھا کر مارشل لاء کے نفاذ کو جائز قرار دینے کے فیصلے دیئے گئے۔

عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایسا فیصلہ دیا جسے کبھی عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ پارلیمنٹ اور انتظامیہ منقسم ہو سکتے ہیں مگر عدلیہ نہیں۔ عدالتوں کو اس انداز سے فرائض انجام دینے چاہیں جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اختر افغان نے کہا کہ بلوچستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کیلئے جامع اقدامات کئے جا رہے ہیں۔