کراچی۔23فروری (اے پی پی):تین ٹیسٹ، تین ون ڈے انٹرنیشنل اور واحد ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز کھیلنے کے لیے پیٹ کمنز کی زیرقیادت آسٹریلیا کا ٹیسٹ اسکواڈ اتوار کو پاکستان پہنچے گا، یہ آسٹریلیا کا 24 برس بعد پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔مجموعی طور پر یہ آسٹریلیا کا پاکستان کا نواں ٹیسٹ دورہ ہوگا جبکہ 2002 سے 2018 کے دوران پاکستان نے دونوں ممالک کے مابین کھیلی گئی چار ٹیسٹ سیریز کی میزبانی نیوٹرل مقامات (متحدہ عرب امارات اور انگلینڈ)پر کی۔
آسٹریلیاٹیسٹ میچ کھیلنے پہلی مرتبہ 1956 میں پاکستان آیا۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی نے 11 سے 17 اکتوبر تک کھیلے گئے واحد ٹیسٹ کی میزبانی کی۔اس میچ میں لیجنڈری فاسٹ بولر فضل محمود نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے لیے 13وکٹیں حاصل کیں۔ اس میچ میں عبدالحفیظ کاردار کی زیرقیادت پاکستان نے مہمان ٹیم کو9 وکٹوں سے شکست دی۔ 1959-60 آسٹریلیا کی پاکستان میں دو یا دو سے زیادہ ٹیسٹ میچز پر مشتمل پہلی سیریز تھی۔ رچی بینو کی زیرقیادت میں آسٹریلوی ٹیم نے ڈھاکہ میں پہلا ٹیسٹ آٹھ وکٹوں سے جیتا۔
مہمان ٹیم نے لاہور میں کھیلا گیا دوسرا ٹیسٹ میچ بھی سات وکٹوں سے جیت کر سیریز اپنے نام کی۔ کراچی میں کھیلا گیا سیریز کا تیسرا اور آخری ٹیسٹ ڈرا رہا۔مہمان ٹیم تیسری مرتبہ 1964 میں پاکستان آئی۔
دونوں ممالک کے مابین اکتوبر 1964 میں کراچی میں کھیلے گئے واحد ٹیسٹ میچ میں اسکور تو بہت زیادہ بنا تاہم میچ ڈرا پر ختم ہوا۔ پاکستان کے خالد عباد اللہ نے اپنے ڈیبیو پر سنچری اسکور کی جبکہ آسٹریلیا کے لیجنڈری بلے باز بوبی سمپسن نے میچ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنائیں۔1979-80 میں تین میچز پر مشتمل سیریز 1-0 سے پاکستان نے جیتی۔ اسپنر اقبال قاسم نے 11 وکٹیں حاصل کیں ،اس سیریز میں پاکستان کی قیادت جاوید میانداد نے کی۔
لاہور اور فیصل آباد میں کھیلے گئے باقی دو ٹیسٹ ڈرا ہوئے۔پاکستان نے 1982-83 کی سیریز میں 3-0 سے کلین سویپ کیا۔ محسن خان اور ظہیر عباس میزبان ٹیم کے بیٹنگ چارٹ میں سرفہرست رہے۔ لیگ اسپنر عبدالقادر نے سیریز میں 22 وکٹیں حاصل کیں، کپتان عمران خان نے 13 وکٹیں لیں۔
اس دوران پاکستان نے کراچی ٹیسٹ 9 وکٹوں، فیصل آباد ٹیسٹ ایک اننگز اور تین رنز جبکہ لاہور ٹیسٹ9 وکٹوں سے جیتا۔ 1988-89 میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلے گئے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کے کپتان جاوید میانداد نے یادگار ڈبل سنچری اسکور کی۔ اس میچ میں پاکستان نے آسٹریلیا کو ایک اننگز اور 188 رنز سے شکست دی۔ یہ رنز کے اعتبار سے اس وقت کی سب سے بڑی ٹیسٹ فتح تھی۔ فیصل آباد اور لاہور ٹیسٹ ڈرا رہے۔ 1994 میں کی سیریز میں پاکستان نے ٹیسٹ تاریخ کی سب سے سنسنی خیز فتح سمیٹی۔ میزبان ٹیم نے محض ایک وکٹ سے کراچی ٹیسٹ جیتا۔
پھر کپتان سلیم ملک نے راولپنڈی میں شاندار ڈبل سنچری اسکور کرکے میچ بچایا۔ انہوں نے لاہور میں پھر سنچری اسکور کی۔ دونوں ممالک کے مابین ٹیسٹ سیریز 1-0 سے پاکستان کے نام رہی۔ پاکستان میں سیریز جیتنے کے لیے آسٹریلیا کا 39 سالہ انتظار 1998 میں ختم ہوا۔ مارک ٹیلر کی قیادت میں مہمان ٹیم نے تین میچوں کی سیریز 1-0 سے جیتی۔ آسٹریلیا نے راولپنڈی میں پہلا ٹیسٹ ایک اننگز کے مارجن سے جیتا۔
اس کے بعد مارک ٹیلر نے پشاور ٹیسٹ میں یادگار ٹرپل سنچری بنائی۔ پشاور میں ہائی اسکورنگ ڈرا کے بعد، اعجاز احمد کی سنچری نے پاکستان کو کراچی ٹیسٹ ڈرا کرنے میں مدد کی۔2002-03 میں متحدہ عرب امارات میں تین میچوں کی سیریز میں پاکستان کی قیادت وقار یونس نے کی۔ انضمام الحق اور محمد یوسف سے محروم میزبان سائیڈ کو اسٹیو واہ کی زیرقیادت میدان میں اترنے والی مہمان ٹیم نے 3-0 سے کلین سویپ کیا۔ شارجہ میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان 59 اور 53 رنز پر ڈھیر ہو گیا
، یہ اب تک پاکستان کا ٹیسٹ کرکٹ سب سے کم مجموعہ ہے۔2010 میں دونوں ٹیموں کے درمیان دو ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز انگلینڈ میں کھیلی گئی۔ لارڈز ٹیسٹ میں شکست کے بعد، پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف ہیڈنگلے لیڈز میں تین وکٹوں کی سنسنی خیز جیت کے ساتھ تقریبا 15 سالوں میں آسٹریلیا کے خلاف اپنی پہلی ٹیسٹ جیت درج کی۔ محمد عامر نے سات وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو تاریخی فتح دلائی۔2014 میں پاکستان نے دبئی اور ابوظہبی میں دو زبردست فتوحات ریکارڈ کر کے آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں 2-0 سے کلین سویپ کیا۔
یونس خان، احمد شہزاد، اظہر علی اور سرفراز احمد نے شاندار بلے بازی کی۔ کپتان مصباح الحق نے ابوظہبی ٹیسٹ میں اس وقت کی مشترکہ تیز ترین ٹیسٹ سنچری اسکور کی۔ لیگ اسپنر یاسر شاہ اور بائیں ہاتھ کے اسپنر ذوالفقار بابر نے مہمان بیٹرز کوسیریز کے دوران مسلسل دبائو میں رکھا۔ 2018 میں پاکستان نے دو میچوں کی سیریز 1-0 سے جیتی۔ سرفراز احمد کی زیرقیادت قومی کرکٹ ٹیم نے دبئی میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ ڈرا کیا تاہم محمد عباس کی شاندار کارکردگی نے دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان کو 373 رنز کی فتح دلائی۔