اتحادی حکومت نے مشکل فیصلوں کے بعد ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ،ملک میں معاشی استحکام لانے میں کامیاب ہوئے ، وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی میڈیا بریفنگ

180
اتحادی حکومت نے مشکل فیصلوں کے بعد ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ،ملک میں معاشی استحکام لانے میں کامیاب ہوئے ، وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی میڈیا بریفنگ

اسلام آباد۔16جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت نے مشکل فیصلوں کے بعد ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور ملک میں معاشی استحکام لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اب عوامی خوشحالی کیلئے فیصلوں کا آغاز کرنے جا رہے ہیں، پی ٹی آئی کی نا اہل حکومت نے پونے چار سال کے دوران ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کیا جس کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان ہے، ہم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی کے بعد ایک ایک پائی عوام تک منتقل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں اور آئندہ بھی تمام ثمرات عوام تک پہنچائیں گے، نان پروٹیکٹڈ توانائی صارفین کے ٹیرف پر نظر ثانی کیلئے نیپرا کو پٹیشن بھجوا دی ہے،

حکومت پنجاب کے 100 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت بجلی فراہم کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ دیگر صوبے بھی اس کی تقلید کریں گے، پاکستان ریلوے اور پی آئی اے کے کرایوں میں کمی کا اعلان کردیا گیا ہے، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کیلئے پیر کو پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو وزارت خزانہ میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ معاشی استحکام عوامی خوشحالی اقتصادی جائزہ کے حوالے سے میڈیا بریفنگ کے دوران کیا۔ وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسماعیل نے میڈیا بریفنگ کے دوران اپریل 2022 میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ کے وقت کی صورتحال ، اتحادی حکومت کے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور اقتصادی حالت میں بہتری کیلئے اٹھائے گئے اقدامات، مشکل بین الاقوامی صورتحال اور مالی سال23-2022 کے اہم نکات اور اقتصادی جائزہ اور توقعات پر میڈیا کو بریفنگ دی اور کہا کہ اپریل 2022 میں جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی اس وقت مالی سال 23-2022 میں تاریخ کے بدترین مجموعی مالی خسارے کا خدشہ تھا اور جس کا حجم 5100 ارب روپے ہونے کا خدشہ تھا جو بجٹ تخمینہ سے 1600 ارب روپے زائد تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طر ف سے پٹرولیم مصنوعات پر آخری دنوں میں سبسڈی دینے سے معاشی صورتحال خراب ہونے کی بات کی جاتی ہے لیکن صرف سے اس سبسڈی سے نہیں بلکہ پونے چار سال کی مسلسل ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور توانائی کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں نے مشکل معاشی حالات کے پیش نظر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کیا جس سے مہنگائی کی ایک اور لہر آئی اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں یہ فیصلے اس لئے لینے پڑے کیونکہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ آج ہم ان مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ملک میں معاشی استحکام آنا شروع ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے پہلے تین سال کا بجٹ خسارہ 3408 ارب روپے تھا جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون کے دور میں یہ خسارہ 1664 ارب روپے تھا۔ ہم نے اپنے دور میں ریکارڈ ترقیاتی پروگرام شروع کئے، توانائی کے بے شمار منصوبے لگائے جس میں سولر، پن بجلی، پون بجلی اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی شامل ہیں لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایک میگاواٹ بجلی کا کوئی منصوبہ نہیں لگایا اور نہ ہی کوئی ریل، روڈ ، یونیورسٹی، کالج یا ہسپتال کا منصوبہ لگایا لیکن اس کے باوجود 70 میں اتنے قرضے نہیں لئے گئے جتنے قرض اپنے پونے چار سالوں میں پاکستان تحریک انصاف نے لئے۔

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے اس نااہلی کے دور میں ترقیاتی بجٹ بھی 900 ارب روپے کم کر کے 550 ارب روپے کر دیا اور قومی قرضے میں 19 ہزار 413 ارب روپے یعنی 78 فیصد اضافہ کیا اور یہ قرض 24 ہزار 953 ارب روپے سے بڑھ کر 40 ہزار 366 ارب روپے ہو گیا۔ کل قرض اور واجبات میں 23 ہزار 665 ارب روپے یعنی 79 فیصد اضافہ کیا گیا جو 29 ہزار 879 ارب روپے سے بڑھ کر 53 ہزار 544 ارب روپے پر پہنچ گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے آخری سال میں تجارتی خسارہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ خسارہ تھا اور وہ 48 ارب ڈالر ہے،

برآمدات صرف 40 فیصد درآمدات کا احاطہ کرتی ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں 30.4 ارب ڈالر اور رواں مالی سال میں 35.1 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت پیش آئی۔ ایف بی آر کے ٹیکس کی جی ڈی پی کی شرح صرف 9.1 فیصد رہی جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت یہ شرح 8.5 فیصد سے بڑھا کر 11.1 فیصد پر لے کر آئی تھی اور پاکستان تحریک انصاف نے ا س شرح کو ہر سال کم کیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے لگائے گئے نرخوں کی وجہ سے پٹرول کی سبسڈی میں 120 ارب روپے ماہانہ نقصان اور بجلی کی سبسڈی میں ماہانہ نقصان 27 ارب روپے ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے سال بجلی کے شعبہ میں 1070 ارب روپے کا خسارہ ہو جو حکومت کو ادا کرنا پڑا۔

اسی طرح گیس کی مد میں 101 ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑ رہی ہے۔ بجلی کے گردشی قرضے 1100 ارب روپے سے بڑھ کر 2500 ارب سے زیادہ ہو گئے ہیں اور ملک کی تاریخ میں بجلی دفعہ گیس کا گردشی قرضہ پیدا ہوا اور بد قسمتی سے بیرونی قرض اور واجبات مجموعی قرضے کا 33 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد تک ہو چکے ہیں۔ سالانہ قرضوں کی سروسنگ 1500 ارب روپے سے بڑھ کر 3144 ارب روپے ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت عدم فیصلہ سازی اور تعطل کی وجہ سے ایک سال کی تاخیر سے آئی ایم ایف کے پاس گئی اور مشکل ترین شرائط پر معائدہ کیا اور نومبر 2021 سٹاف لیول ایگریمنٹ میں کئے گئے معاہدے سے انحراف کیا اور تحریک عدم اعتماد سے قبل جان بوجھ کر آئی ایم ایف پروگرام کو سبوتاژ کر دیا اور ملک کو تباہی کے دہانے پر لے گئے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ذمہ داریاں سنبھالنے کے تیسرے دن ہدایات جاری کیں کہ آئی ایم ایف سے مذکرات کئے جائیں اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے مشکل ترین فیصلے کئے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحادیوں کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور اقتصادی حالات بہتر کرنے کیلئے مسلم لیگ نون کے اقدامات کی تائید کی ۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے آغاز میں ہی پروگرام کو بحال کرایا جس کیلئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا پڑیں ، زرمبادلہ کے ذخائر کی بہتری اور دوہرے خسارے کو کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے، آئی ایم ایف پروگرام کے علاوہ چینی بینکوں سے 2.3 ارب ڈالر کا قرض ری شیڈول کرایا گیا، کثیر الجہت ترقیاتی شراکت داروں اور دوست ممالک سے رابطے کئے گئے اور درآمدات پر فوری کنٹرول کیلئے اقدامات اٹھائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ فوری ٹیکس محصولات میں اضافہ اور اخراجات میں کمی اور 2022-23 کا پروگریسو بجٹ پیش کرکے ترجیحات میں توازن قائم کیا گیا۔

مشکل بین الاقوامی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ جب ہم نے ذمہ داریاں سنبھالیں تو بین الاقوامی منڈی میں اشیا کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ ہے، کوئلے کی قیمتیں، ایل این جی کی قیمتیں، خوراک کی قیمتیں اور تیل (ایندھن) کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی تھیں اور بین الاقوامی معیشت سست روی کا شکار تھی۔ امریکہ میں بھی اشیائے خوردنی کی قیمتیں آسمان کو چھو گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس تمام صورتحال کے باوجود ہم نے2022-23 کے بجٹ کی ترجیحات کو اس طرح متعین کیا ہے جس سے ملک میں معاشی استحکام آئے گا اور عوام کو خوشحالی میسر آئے گی۔ ایف بی آر کے ٹیکس محصولات کا حجم 2021-22میں 6050 ارب روپے تھا ہم نے اسے بڑھا کر مالی سال 23-2022کے بجٹ میں 7470 ارب روپے رکھا ہے اور ہم یہ ٹیکس وصول کر کے دکھائیں گے، نان ٹیکس محصولات کی مد میں گزشتہ مالی سال میں 1315 ارب روپے تھے جسے بڑھا کر ہم نے 1935 ارب روپے کیا ہے۔ صوبوں کے حصے میں بھی ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ کیا ہے،

خالص وفاقی محصولات 5032 ارب روپے کئے گئے ہیں جو گزشتہ مالی سال سے 12 ارب روپے زیادہ ہے، کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ گزشتہ سال 9133 ارب روپے تھا ہم نے یہ تخمینہ 9579 ارب روپے مقرر کیا ہے۔ اسی طرح گزشتہ مالی سال کرنٹ اخراجات 8501 ارب روپے تھے جو مالی سال 2022-23 میں 8708 ارب روپے ہوں گے۔ ڈیبٹ سروسنگ گزشتہ مالی سال 3144 ارب روپے تھی اسے بڑھا کر 3950 ارب روپے کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح پنش ، سبسڈی اور ترقیاتی اخراجات میں بھی بہتری کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے مختص رقم 250 ارب روپے سے بڑھا کر 364 ارب روپے کر دی گئی ہے،

یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن پر اشیاء کی سبسڈی کیلئے 12 ارب روپے مختص کئے ہیں جبکہ رمضان پیکج کے لئے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں، نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی اور ان کی تربیت اور بلاسود قرضوں کی فراہمی کیلئے بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کیلئے لیپ ٹاپ سکیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم وتربیت کے لئے وظائف اور معاونت کے پروگرام رکھے گئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو 109 ارب روپے جبکہ بلوچستان کے طلباء کیلئے تعلیمی وظائف کی مد میں 5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ غیر پیداواری اثاثوں پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ امیر طبقات پر سپر ٹیکس متعارف کرایا گیا ہے۔ 1600 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ایڈوائس ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا جبکہ زرعی پیداوار میں اضافہ کیلئے بیج ، ٹریکٹر اور کھادوں پر سبسڈی دی گئی اور جی ایس ٹی ختم کر دیا گیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو بھی ٹیکس میں ریلیف دیا گیا ہے ،

برآمدات میں اضافے کیلئے موجودہ حکومت نے ڈی ایل ٹی ایل کی مد میں 40.5 ارب روپے دیئے ہیں اور آئی ٹی سیکٹر کیلئے 17 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے اقتصادی جائزہ اور اگست 2023 تک کی توقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ معاشی صورتحال کی بہتری کے بعد ہم نے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جسے اگست 2023 تک افراط زر کی شرح میں نمایاں کمی آئے گی ، زراعت اور آئی ٹی سیکٹر کو ترقی ملے گی، برآمدات میں اضافہ ہو گا اور بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے گا جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کے لئے بھی اقدامات تجویز کئے گئے اور مختلف دوست ممالک سے توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی توقع ہے جس سے معاشی صورتحال میں مزید استحکام آئے گا۔