ارشد شریف کی موت بارے حقائق کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے، ان کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا ، سائفر پر ڈرامائی انداز میں بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی، ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی مشترکہ پریس کانفرنس

119
ISPR
ISPR

راولپنڈی۔27اکتوبر (اے پی پی):ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور انٹر سروسز انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے سینئر صحافی ارشد شریف کی موت کے حوالے سے پھیلائے جانے والے جعلی بیانیئے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ارشد شریف کی موت انتہائی اندوہناک واقعہ ہے ، اس حوالہ سے تحقیقات کرکے حقائق کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے، ان کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کیا ۔

ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہآج دنیا بھر میں مقیم کشمیری یوم سیاہ منا رہے ہیں،پاکستانی قوم کل بھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی تھی ، آج بھی ساتھ کھڑی ہے اور ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پریس کانفرنس صحافی ارشد شریف کی موت اوراس کے عوامل کا احاطہ کرنے کے لئے منعقد کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی موت انتہائی اندوہناک واقعہ ہے اور ہم سب کو اس کا شدید دکھ ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، دکھ اور تکلیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی موت کے حوالے سے ایک جھوٹا بیانیہ بنایا گیا اور لوگوں کو گمراہ اور اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔

ارشد شریف کی وجہ شہرت تحقیقاتی صحافت تھی لہٰذا جب سائفر کا معاملہ سامنے آیا تو ارشد شریف صاحب نے اس پر بھی متعدد پروگرام کیے۔ اس حوالے سے انہوں نےا س وقت کے وزیراعظم سے کئی ملاقاتیں بھی کیں اور ان کے کئی انٹرویوز بھی کیے جس کے نتیجے میں یہ بات بھی کی گئی کہ شاید انہیں مختلف میٹنگز کے منٹس اور سائفر بھی دکھائے گئے۔انہوں نے کہا کہ مرحوم ارشد شریف کے علاوہ دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے بھی سائفر کے حوالے سے باتیں کیں اور بہت سخت باتیں بھی کیں، ارشد شریف تو نومبر 2021 سے اے آر وائی چینل کے پلیٹ فارم سے اداروں پر تنقید کررہے تھے جس میں انہوں نے مختلف اداروں کے حوالے سے سخت تنقیدی پروگرامز بھی کیے لیکن اس کے باوجود ان کے حوالے سے ہمارے دل میں کسی قسم کے منفی جذبات تھے نہ ہیں۔

کئی دیگر صحافی بھی اس پر بات کررہے تھے لیکن وہ پاکستان سے نہیں گئے۔آج بھی وہ بہت سخت سوالات اٹھا رہے ہیں جو ان کا آئینی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ گمراہ کن پروپیگنڈے کے باوجود پاک فوج نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی کہا گیا کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر مسائل حل کریں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سائفر اور ارشد شریف کی موت سے جڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے تاکہ اس سلسلے میں کسی قسم کا ابہام اور قیاس آرائی پیدا نہ ہو اور قوم سچ جان سکے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک سائفر کا معاملہ ہے تو آرمی چیف نے 11مارچ کو کامرہ میں سابق وزیراعظم سے خود اس کا تذکرہ کیا تھا جس پر انہوں نے فرمایا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب 27مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں ڈرامائی انداز میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا اور ڈرامائی انداز میں ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام پر آ چکے ہیں جس نے اس کھوکھلی اور من گھڑت کہانی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 31مارچ کی نیشنل سکیورٹی میٹنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، آئی ایس آئی نے بڑے واضح اور پیشہ ورانہ انداز میں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ یہ پاکستانی سفیر کا ذاتی تجزیہ ہے اور پاکستانی سفیر نے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا وہی لائحہ عمل نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے دفتر خارجہ کو تجویز کیا۔

انہوں نے کہا کہ پھر اس حوالے سے امریکا کے دنیا بھر میں رجیم چینج آپریشنز کے حوالے دیے گئے اور ان کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑ دیا گیا، پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا۔یہی وہ وقت تھا جب ارشد شریف اور دیگر کئی صحافیوں سمیت سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ایک مخصوص بیانیہ فیڈ کیا گیا جس کی حقیقت واضح ہوچکی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ذہن سازی کے ذریعے قوم اور افواج پاکستان میں، سپاہ اور قیادت کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی، اس میڈیا ٹرائل میں اے آر وائی چینل نے بالخصوص پاکستان آرمی اور لیڈرشپ کے حوالے سے ایک جھوٹے اور سازشی بیانیے کو فروغ دینے میں ایک ’سپن ڈاکٹر‘ کا کردار ادا کیا اور ایجنڈا سیٹنگ کے ذریعے فوج کے خلاف مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا۔نیشنل سکیورٹی کی میٹنگز اور اعلامیے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا حتیٰ کہ دوسرے اجلاس میں اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبر بھی چلائی گئی، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جوکہ آئین پاکستان کے خلاف ہے، نیوٹرل اور غیرسیاسی جیسے الفاظ کو گالی بنا دیا گیا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس تمام پروپیگنڈے کے باوجود ادارے اور خاص طور پر آرمی چیف نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر خود مسائل کا حل نکالیں لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ یہ بھی کہا گیا کہ سائفر کو چھپایا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا دفتر خارجہ نے سائفر چھپایا؟ جو اس وقت سائفر ہینڈل کرنے کے ذمہ دار تھے ان کے خلاف پھر کیا ایکشن لیا گیا؟ اگر نہیں لیا گیا تو کیوں نہیں لیا گیا؟ اور ان کے نام کیوں نہیں لیے جاتے؟۔

انہوں نے کہا کہ لفظوں کے ہیر پھیر، گمراہ کن اور جھوٹی خبریں پھیلا کر اداروں اور ان کی قیادت کو غدار ٹھہرا کر کٹہرتے میں کھڑا کردیا گیا۔لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ تمام سائفر ڈرامے کے دوران ہم نے جب بھی کسی چینل یا صحافی سے بات کی تو یہی کہا کہ بنا ثبوت اور من گھڑت مفروضات پر غداری اور سازشوں کے الزامات ادارے کی قیادت پر نہ لگائے جائیں اور فوج کے غیرسیاسی رہنے کے موقف کو متنازع نہ بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آج دیکھنا یہ ہو گا کہ مرحوم ارشد شریف کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے حقائق کیا ہیں، پانچ اگست 2022 کو خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اے آر وائی اینکر ارشد شریف کے حوالے سے ایک تھریٹ الرٹ جا ری کیا گیا۔ ہماری اطلاع کے مطابق یہ تھریٹ الرٹ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر جاری کیا گیا جس میں شبہ ظاہر کیا گیا کہ افغانستان میں مقیم تحریک طالبان پاکستان کے گروپ نے سپن بولدک میں ایک میٹنگ کی ہے جو ارشد شریف کو راولپنڈی اور ملحقہ علاقوں میں نشانہ بنانا چاہتے ہیں، اس حوالے سے وفاقی حکومت یا سکیورٹی اداروں سے کسی قسم کی معلومات شیئر نہ کی گئیں کہ کیسے اور کس نے خیبر پختونخوا حکومت کو یہ اطلاع دی کہ ارشد شریف صاحب کو نشانہ بنایا جائے گا۔

یہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا جس کا مقصد شاید ارشد شریف صاحب کو ملک چھوڑنے پر آمادہ کرنا تھا جبکہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے لیکن بار بار ان کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ ان کو خطرہ لاحق ہے۔انہوں نے کہا کہ 8اگست 2022 کو شہباز گل کے اے آر وائے چینل پر بغاوت پر اکسانے کے متنازع بیان کی تمام مکاتب فکر نے مذمت کی اور اسے ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف قرار دیا اور 9 اگست کو انہیں گرفتار کیا گیا۔

اس متنازع سپیشل ٹرانسمیشن کے حوالے سے اے آر وائے کے سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ سے تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ اے آر وائے کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال نے شہباز گل کی گرفتاری کے فوراً بعد عماد یوسف کو ہدایات دیں کہ ارشد شریف کو جلد از جلد پاکستان سے باہر بھیج دیا جائے، اس کے جواب میں انہوں نے سلمان اقبال کو بتایا کہ ارشد شریف پشاور سے دبئی کے لیے روانہ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پھر اس حوالے سے متواتر یہ بیانیہ بنایا جاتا رہا کہ ارشد شریف کو بیرون ملک قتل کر دیا جائے گا، 9 اگست 2022 کو 4 بجکر 40 منٹ پر ارشد شریف کی کراچی سے دبئی کے لیے ایک ٹکٹ بک کیاجو اے آر وائے گروپ کے اسسٹنٹ منیجر پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن عمران کے کہنے پر فضل ربی نامی ٹریول ایجنٹ نے ساڑھے پانچ لاکھ روپے وصول کرنے کے بعد بُک کیا ۔اس ٹریول پلان کے مطابق 9 ستمبر 2022 کو ارشد شریف کو پاکستان واپس آنا تھا، 10 اگست کو باچا خان ایئرپورٹ سے ارشد ایمریٹس انٹرنیشنل کی پرواز ای کے-637 کے ذریعے صبح چھ بجکر 10 منٹ پر دبئی کے لیے روانہ ہوئے، ارشد شریف کو اس دوران خیبر پختونخوا حکومت نے مکمل پروٹوکول فراہم کیا اور سرکاری گاڑی میں انہیں ایئرپورٹ پہنچایا گیا۔

ارشد شریف کی موت میں کسی دوسرے ملک کے شامل ہونے سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا ارشد شریف کے معاملے پر تھرڈ پارٹی ملوث ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک متحدہ قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے۔آئین اداروں کی کردار کشی اور ان کے خلاف بات کی اجازت نہیں دیتا۔ارشد شریف کیس کی صاف و شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ انہوں نے واضح کیاکہ تحقیقاتی کمیٹی سے آئی ایس آئی کے ممبر کو دانستہ نکالا گیا تاکہ شک و شبہات کااندیشہ نہ رہے، تنقید ہر ایک کا حق ہے، اداروں کا دفاع حکومت وقت کرتی ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی اپنے وقت پر ہو گی، سوالات کریں لیکن حقائق کو توڑ موڑ کر نہ پیش کریں، ملک کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لئے تمام ادارے کام کررہے ہیں۔ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ میری واضح پالیسی ہے کہ میری تشہیر نہ کی جائے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں، میرےا دارے کے جوانوں پر جھوٹی تہمتیں لگائی گئیں اس لیے آیا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے شہیدوں کا مذاق بنایا گیا، اس میں دو رائےنہیں کہ کسی کو میر جعفر، میر صادق کہنےکی مذمت کرنی چاہیے، بغیر شواہد کے الزامات کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹ سےفتنہ و فسادکا خطرہ ہوتو سچ کاچپ رہنا نہیں بنتا، میں اپنے ادارے، جوانوں اور شہدا کا دفاع کرنے کے لیے سچ بولوں گا۔

انہوں نے کہاکہ نیوٹرل اور جانور اس لیے کہا جارہا ہے کیونکہ ہم نے غیر قانونی کام سے انکار کیا ہے، غیر قانونی کام سے انکار فرد واحد یا صرف آرمی چیف کا فیصلہ نہیں پورے ادارے کا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ مارچ کے مہینے میں ہم پربہت دبائوتھا ، ہم نے فیصلہ کیا کہ خودکو آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے، جنرل باجوہ چاہتےتو اپنےآخری چھ سات مہینے سکون سے گزار سکتے تھے لیکن جنرل باجوہ نے فیصلہ ملک اورادارے کےحق میں کیا، جنرل باجوہ اوران کے بچوں پرغلیظ تنقیدکی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اُس وقت جو حکومت وقت تھی جو توسیع کو قانونی طور پر دینے کے مجاز تھے انہوں نے آرمی چیف کو غیر معینہ مدت تک توسیع دینے کی پیشکش بھی کی ، اس وقت یہ پیشکش اس لیے کی گئی کہ تحریک عدم اعتماد کا معاملہ اپنے عروج پر تھا۔

آرمی چیف نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا ، اگران کی نظر میں سپہ سالار غدار ہے تو ماضی قریب میں ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے، ملازمت میں توسیع کیوں دینا چاہتے اور آج بھی چھپ کر ان سے کیوں ملتے ہیں ؟انہوں نے کہا کہ ارشد شریف واپس آنے کی خواہش رکھتے تھے ، ان کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا، جب کے پی حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری کیا تو ہماری تحقیق کے مطابق ایسا کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ کینیا کے اپنے ہم منصب کے ساتھ رابطے میں ہوں۔ میرے منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے پس منظر میں رہنا پڑتا ہے لیکن جب میرے ادارے کو بلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو خاموش نہیں رہ سکتا، جہاں ضرورت پڑی میں سچ عوام کے سامنے رکھوں گا۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ہمارا محاسبہ ضرورکریں لیکن پیمانہ رکھیں کہ میں ملک کے لیے درست کام کررہاہوں یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ جب ڈی جی آئی ایس آئی بنا تو مجھ سے پوچھاگیاکہ پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ کیا ہے، میں نےکہا معاشی مسائل، جس نےمجھ سے پوچھا تھا اس کے نزدیک پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ حزب اختلاف تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بیرونی خطرات یا عدم تحفظ سے خطرہ نہیں ہے، پاکستان کا دفاع اس لیے مضبوط ہے کہ اس کی ذمہ داری 22 کروڑ عوام نے لی ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ جب آپ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرتےہیں تو اس سے ملک میں عدم استحکام آتاہے، پاکستان کے آئین میں ایک حق احتجاج کرنے کا بھی ہے، ہمیں کسی کے احتجاج، لانگ مارچ یا دھرنے پر اعتراض نہیں، جب زیادہ لوگ اکٹھے ہوں تو خطرہ ہوتاہے، ہمارافرض ہےکہ ہم سکیورٹی دیں، ہم باتیں نہیں،کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرا ادارہ اور ایجنسی کسی جماعت کے ساتھ نہیں انہوں نے کہاکہ اس مٹی کی خاطر ہمارے بہت سے جوان شہید ہوئے ان کا بھی مذاق اڑایا گیا۔ میں اپنی ذات کے لئے نہیں اپنے ادارے اور ملک و قوم کے لئے عوام کے سامنے آیا ہوں۔ مارچ میں میری ذات کے خلاف غلیظ مہم چلائی گئی۔ ملک کے مفاد کے لئے ضروری تھاکہ ہم اپنے ادارے اور خود کو سیاست سے باہر کر لیں۔ ہم پر بہت دبائو تھا لیکن اس کے باوجود بھی ہم اپنے آئینی کردار پر قائم رہے۔

ایک سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھاکہ جتنی بھی میٹنگز ہوئیں ہمارا مشورہ اوربیانیہ یہی تھاکہ آپ کو جوکرنا ہےآئین کےتحت کرناہے۔انہوں نے کہا کہ ایک سیمینار میں اداروں کے خلاف بات ہوئی تو وزیراعظم اور دیگر وزرا نے مذمت کی۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے پاکستان کے صحافی بہت خطرات کے باوجود اپناکام بہت اچھا کررہے ہیں، صحافیوں کو لفافہ کہنے کے خلاف ہوں، کوئی صحافی ایسا نہیں جسے میں بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی لفافہ کہہ سکوں۔