اسلام آباد ہائی کورٹ کی 59.3 ارب روپے مالیت کے ٹاورز کے لین دین میں ایف بی آر کے مؤقف کی توثیق

70

اسلام آباد۔12جون (اے پی پی):اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے جسٹس بابر ستار کی سربراہی میں ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی کی جانب سے دائر کردہ 59.3 ارب روپے مالیت کے ٹیکس ریفرنس میں ایف بی آر کے مؤقف کے حق میں اہم فیصلہ سنا د یا، فیصلے کی رو سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اس اختیارکو تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ اندرونِ گروپ کے بڑے لین دین میں ٹیکس واجبات کا تعین کر سکتا ہے جس میں ایک ٹیلی کام کمپنی نے اپنے ٹاور اثاثہ جات اپنی ذیلی کمپنی کو منتقل کئے تھے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں ٹیلی کام کمپنی کو اس لین دین کی مد میں ہونے والے منافع پر تقریباً 22 ارب روپے (78 ملین امریکی ڈالر) ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ایف بی آر کی جانب سے جمعرات کویہاں جاری بیان کے مطابق یہ اہم مقدمہ 2018 کی ایک اثاثہ جات کی داخلی تنظیمِ نو کے حوالے سے تھا جس میں ایک ٹیلی کام کمپنی نے ملک بھر کے اپنے ٹاور اثاثہ جات اپنی ذیلی کمپنی کو منتقل کئے تھے۔

ٹیلی کام کمپنی نے اپنے مالیاتی گوشواروں میں ان اثاثوں کی فروخت کی قیمت 98.5 ارب روپے (940 ملین امریکی ڈالر) ظاہرکی جبکہ اس لین دین میں ہونے والا حسابی منافع تقریباً 75.9 ارب روپے ظاہر کیا گیا تاہم کمپنی کا مؤقف تھا کہ یہ لین دین ٹیکس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اثاثے اس کی ایک ملکیتی ذیلی کمپنی کو منتقل کئے گئے ہیں جو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 97(1) کے تحت اندرونِ گروپ منتقلی کے زمرے میں آتا ہے۔عدالت عالیہ نے کمپنی کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ ٹیکس میں چھوٹ صرف اسی صورت میں لاگو ہو سکتی ہے جب انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 97 کی تمام شرائط پوری کی جائیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ منتقل شدہ اثاثے کی تحریری مالیت منتقل کرنے والے اور لینے والے دونوں کے درمیان یکساں رہے، یعنی لین دین سے کوئی نیا معاشی فائدہ نہ پیدا ہو جس پر ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہو۔

عدالت نے قرار دیا کہ لین دین 940 ملین امریکی ڈالر کی فیئر مارکیٹ ویلیو پر ہوا جسے مدعی نے خود تسلیم کیا، اس لئے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 97 کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ چنانچہ عدالت نے فیصلہ دیا کہ اس لین دین کے نتیجہ میں ہونے والا منافع ایک قابلِ ٹیکس آمدنی ہے اور اس پر ٹیکس کی مؤخر ادائیگی کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی۔مزید برآں عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ کمشنر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ حسابی آمدنی کی بنیاد پر قابلِ ٹیکس آمدنی کا تعین کر سکے۔ترجمان ایف بی آر کے مطابق عدالتی محاذ پر ایف بی آر کی یہ شاندار کامیابی وزیرِ اعظم پاکستان کے وژن کی تکمیل کی جانب ایک اور قدم ہے جس کا مقصد مختلف اپیلیٹ فورمز پر زیر التواء مقدمات میں قومی محاصل کی فوری وصولی کو یقینی بنانا ہے۔چیئرمین ایف بی آر راشد محمود کی قیادت میں ایف بی آر کے لیگل ونگ نے ممبر (لیگل-آئی آر) میر بادشاہ خان وزیرکی سرکردگی میں ڈائریکٹر جنرل (لیگل) کی اعانت سے کئی ایسے اہم اقدامات اٹھائے ہیں

جن کا مقصد عدالتوں کو مناسب معاونت فراہم کرتے ہوئے زیر التواء مقدمات کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھا نا ہے۔ان اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں اربوں روپے کے زیر التواء ٹیکس محاصل کے کئی مقدمات حل ہو چکے ہیں۔اس مقدمہ میں ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اسما حامد اور ڈائریکٹر جنرل (لیگل) ڈاکٹر اشتیاق احمد خان نے موثر انداز میں ایف بی آر کی نمائندگی کی۔اسی ٹیلی کام کمپنی کی جانب سے فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 کے تحت جاری کردہ شوکاز نوٹس کے خلاف دائر کی گئی ایک اور درخواست کو خارج کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے درخواست گزار پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائدکردیا، جو ڈپٹی کمشنرانکم ٹیکس (آئی آر)، ایل ٹی او، اسلام آباد کو چار ہفتوں کے اندر ادا کرنا ہوگا۔