کراچی۔ 04 مارچ (اے پی پی):ماہرین صحت نے کہا ہے کہ سپتالوں میں داخل 18 سے 20 فیصد مریض طبی غفلت، دواؤں کے غلط استعمال اور اسپتالوں میں لگنے والے جان لیوا انفیکشنز کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔یہ بات ماہرین صحت نے رفاہ انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کیئر کی پیشنٹ سیفٹی اور کوالٹی ہیلتھ کیئر کانفرنس سے متعلق پریس کانفرنس میں کہی۔پریس کانفرنس سے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رفاہ انٹرنیشنل اسد اللہ خان، ایگزیکٹو ڈائریکٹر قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئ سی وی ڈی) پروفیسر ڈاکٹر طاہر صغیر، چیئرمین پیشنٹ سیفٹی ڈاکٹر ذکی الدین، اور سید جمشید احمد نے خطاب کیا۔ڈاکٹر ذکی الدین کا کہنا تھا کہ اسپتالوں میں داخل مریضوں میں سے لگ بھگ 20 فیصد طبی غفلت اور میڈیکل ایررز کا شکار ہوتے ہیں۔
انہوں نے جان ہاپکنز انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد افراد پری وینٹیبل میڈیکل ایررز کے باعث جانبحق ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر ذکی الدین نے کہا کہ "امریکہ میں اموات کی پہلی بڑی وجہ دل کی بیماریاں، دوسری کینسر اور تیسری پری وینٹیبل میڈیکل ایررز ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جسے فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ آٹھویں انٹرنیشنل پیشنٹ سیفٹی کانفرنس اپریل میں آغا خان اسپتال میں ہوگی، جس کا مقصد مریضوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اور علاج کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔
ڈاکٹر ذکی الدین کا کہنا تھا کہ علاج کے دوران کئی طرح کی غلطیاں ہو سکتی ہیں، جن میں غلط دوا کا انتخاب، غلط انجکشن، سرجری کے دوران پیچیدگیاں اور انفیکشنز شامل ہیں۔عالمی ادارہ صحت بھی مسلسل اس حوالے سے آگاہی فراہم کر رہا ہے تاکہ طبی غلطیوں کی روک تھام کی جا سکے۔انہوں نے تجویز دی کہ ترقی پذیر ممالک میں طبی عملے کی تربیت اور جدید سسٹمز کے نفاذ سے ان غلطیوں میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹر یا نرس غلطی کرے تو اسے تسلیم کرنے اور اصلاح کرنے کا ماحول بنایا جائے۔پروفیسر ڈاکٹر طاہر صغیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسپتالوں میں لگنے والے انفیکشنز مریضوں کی اموات اور دائمی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہیں۔انہوں نے بتایا کہ این آئ سی وی ڈی میں ایسے مریض بھی آتے ہیں جو انفیکٹیڈ ہوتے ہیں، جنہیں دیگر اسپتال قبول نہیں کرتے۔ ہماری مجبوری ہے کہ ہم ایسے مریضوں کا علاج کریں۔ ان کے لیے علیحدہ وارڈ بنایا گیا ہے، جسے وقتاً فوقتاً فیومیگیٹ بھی کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب تک 75 سے زائد اسپتالوں میں طبی عملے کی تربیتی ورکشاپس منعقد کی جا چکی ہیں، جن کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ "مغربی ممالک میں اس حوالے سے بہت کام ہوا ہے، جس کے نتیجے میں وہ 80 فیصد اور ہم 50 فیصد تک قابو پا سکتے ہیں۔اسد اللہ خان نے کہا کہ میڈیکل ایررز نہ صرف مریضوں کے لیے تکلیف دہ ہیں بلکہ مالی نقصان کا بھی باعث بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں "پیشنٹ سیفٹی رجسٹری” موجود نہیں، جس کی اشد ضرورت ہے۔ "تمام اداروں کو مل کر ایک پیشنٹ سیفٹی رجسٹری قائم کرنی چاہیے، تاکہ مریضوں کی تفصیلات محفوظ کی جا سکیں اور اسپتالوں میں سخت ریگولیشنز کے ذریعے میڈیکل غلطیوں کی روک تھام یقینی بنائی جا سکے۔اس موقع پر ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مریضوں کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
اسپتالوں میں طبی عملے کی تربیت، جدید حفاظتی سسٹمز کا نفاذ اور سخت ریگولیشنز سے طبی غلطیوں میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے، جو ہزاروں جانیں بچانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=568663