افغانستان معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے،عالمی برادری منجمد وسائل تک رسائی اورہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنائے،مخدوم شاہ محمود قریشی کا ٹرائیکا پلس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب

132
profile pic

اسلام آباد۔11نومبر (اے پی پی):وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے،عالمی برادری منجمدوسائل تک رسائی اورہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔ طالبان رابطوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں تسلیم اور ان کی مدد کرے۔عالمی برادری ماضی کی غلطیاں د ہرانے سے بچے اور مثبت روابط جاری رکھے ۔

پاکستان اور افغانستان مشترکہ ورثہ اور تاریخ رکھتے ہیں،افغانستان میں امن واستحکام قریب ترین ہمسائے کے طورپر پاکستان کے براہ راست مفاد میں ہے۔ وہ جمعرات کو یہاں ’ٹرائیکا پلس‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔اجلاس میں چین، پاکستان، روس اور امریکا کے نمائندگان خصوصی شریک ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ رابطہ نہ صرف بحال رہنا چاہئے بلکہ کئی وجوہات کی بنا پر اس میں اضافہ ہونا چاہئے تاکہ پھر سے یہ ملک خانہ جنگی کی نذر نہ ہو، کوئی بھی دوبارہ ایسا ہوتے دیکھنا نہیں چاہتا، معاشی انحاط وانہدام کا بھی کوئی خواہاں نہیں، جس سے عدم استحکام بڑھے گا، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے اندر فعال دہشت گرد عناصر سے موثر انداز سے نمٹا اور مہاجرین کے ایک نئے بحران سے بچا جائے۔افغانستان سے متعلق ہم سب کی تشویش وفکر مندی مشترک ہے جبکہ وہاں امن واستحکام ہم سب کے مشترکہ مفاد میں ہے۔

ان سب کا حصول ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اس صورتحال میں ’ٹرائیکا پلَس‘ نے نمایاں اہمیت حاصل کرلی ہے اور اس کا کلیدی کردار ہے جو اسے ادا کرنا ہے۔ہم پُراعتماد ہیں کہ ’ٹرائیکا پلَس‘ کے نئی افغان حکومت سے امور کار، امن واستحکام کے فروغ ، پائیدار معاشی ترقی میں مددگار ثابت ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اندر سرگرم دہشت گردوں کے لئے گنجائش مسدود ہوتی چلی جائے گی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان اس وقت معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔

عالمی مالی امداد کے نہ ہونے سے تنخواہوں کی ادائیگی تک میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، چہ جائیکہ ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت ممکن ہوسکے۔ عام آدمی بدترین قحط کے شدید اثرات کا شکار اور اس سے متاثر ہے۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال میں مزید تنزلی نئی انتظامیہ کی حکومت چلانے کی استعداد کو بری طرح محدود کردے گی۔ لہذا ناگزیر ہے کہ عالمی برادری ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے تحرک کرے ۔انہوں نے کہا کہ صحت، تعلیم اور شہری خدمات (میونسپل سروسز) کی فراہمی کو فوری توجہ درکار ہے۔

افغانستان کو اپنے منجمد وسائل کی رسائی سے معاشی سرگرمیاں پیدا کرنے کی ہماری کوششوں کو تقویت ملے گی اور افغان معیشت استحکام اور پائیداری کی طرف گامزن ہوپائے گی۔ اسی طرح اقوام متحدہ اور اس کے اداروں پر زور دیا جائے کہ وہ عام افغان شہریوں تک رسائی کے طریقے تلاش کریں اور اس صورتحال میں ان کی مدد کریں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن واستحکام قریب ترین ہمسائے کے طورپر پاکستان کے براہ راست مفاد میں ہے۔

پاکستان اور افغانستان مشترکہ ورثہ اور تاریخ رکھتے ہیں۔ہم افغانستان کے ہر طبقہ و نسل کو ملک کی حتمی منزل کے لئے اہم تصور کرتے ہیں۔قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے ہم نے گذشتہ چار دہائیوں میں، مہاجرین، منشیات اور دہشت گردی کی صورت میں اس تنازعے اور عدم استحکام کا براہ راست نقصان اٹھایا ہے۔ہم موجودہ صورتحال کو اس طویل تنازعے اور لڑائی کے خاتمے کا ایک موقع گردانتے ہیں۔ اس سمت میں ہم نے پہلے ہی متعدد اقدامات کئے ہیں تاکہ افغانستان میں عام آدمی کو سہولت ملے۔

ان میں افغانستان میں کسانوں کی مدد کے لئے کھانے پینے کی اشیاءکو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دینا،انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی،پیدل آمدورفت کی سہولت،کورونا وائرس کی وبا کے دوران سرحد کو کھولے رکھا ،بیماروں اور علاج کے لئے آنے والوں کو ان کی آمد پر ویزا کی فراہمی کی سہولت شامل ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ 15 اگست کے بعد سے میں نے مختلف ممالک کے اپنے متعدد ہم مناصب کی میزبانی کی۔ ہم افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہماری علاقائی پلیٹ فارم کی تشکیل کی تجویز کی حمایت کی تاکہ تشویش کے مشترک نکات اور مواقعوں پر بات چیت ممکن ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بیرون ملک ان تمام رابطوں کے دوران عالمی برادری اور نئی افغان حکومت کو ہمارا ہمیشہ یہ پیغام رہا ہے کہ رابطے استوار رکھے جائیں اور باہمی اتفاق سے آگے کی راہ تلاش کی جائے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ گزشتہ ماہ کابل کے میرے دورے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ افغانستان کی نئی حکومت کی عالمی برادری سے کیا توقعات ہیں۔ اس سے ہمیں یہ موقع بھی میسر آیا کہ طالبان قیادت کو ہم اپنی رائے سے آگاہ کریں اور عالمی برادری کی اُن سے توقعات کو اجاگر کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان رابطے میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں تسلیم کرے اور ان کی مدد کرے۔

لہذا یہ کلیدی امر ہے کہ عالمی برادری ماضی کی غلطیاں د ہرانے سے بچے اور مثبت روابط جاری رکھے ۔اپنے حصے کے طور پر میں امن، ترقی اور خوش حالی کے راستے پر افغانستان کی مدد کرنے کے ہمارے وزیراعظم کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں۔