افغانستان میں انسانی بحران کو روکنے کے لئے عالمی معاونت اور افغان عبوری حکومت کے ساتھ زیادہ روابط کی ضرورت ہے،پاکستانی سفیرمنصور احمد خان

163

اسلام آباد۔18جولائی (اے پی پی):افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغان عبوری حکومت کے ساتھ وسیع تر روابط کے ذریعے اپنی بھرپور معاونت فراہم کرے تاکہ بڑے پیمانے پر غربت و افلاس اور بدحالی کے باعث گھمبیر ہوتے ہوئے معاشی بحران کے خطرات سے بچاجاسکے ،افغان عوام کی مشکلات کم کرنے کے لئے 9 ارب ڈالر مالیت کے افغان غیرملکی زرمبادلہ ذخائر کو غیر منجمد کرکے افغانستان کے حوالے کیا جانا چاہئے ، افغان عوام کے خلاف اقتصادی پابندیوں کوبطور ہتھیار استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

”اے پی پی” کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں پاکستان کے سفیرمنصور احمد خان نے جنگ سے تباہ حال ملک پر گزشتہ15 اگست کو طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے امریکا کے مختلف مالیاتی اداروں میں رکھے گئے 7ارب ڈالرز سمیت9ارب ڈالرز مالیت کے افغان زرمبادلہ ذخائر کو غیر منجمد کرنے اور مسلسل مالی امداد کو غریب افغان عوام کی مشکلات کم کرنے کے لئے اشد ضروری عوامل قرار دیا۔انہوں نے کہاکہ یہ امر اہم ہے کہ افغان عوام کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے ہتھیار کو استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

افغان غیرملکی زرمبادلہ ذخائر کو افغانستان کے حوالے کیا جانا چاہئے تاکہ انہیں عوام کے مفاد اور ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کے زیادہ روابط اور وسیع تر شراکت داری افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کے لئے بہت ضروری ہے۔ بین الاقوامی برادری آگے بڑھے اور جنگ سے تباہ حال معاشرے اور ان کے اداروں کی معاونت کرے تاکہ وہ اپنے سماجی اور معاشی چیلنجوں پر قابو پا سکیں ۔

یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں کم و بیش 2کروڑ 40لاکھ افراد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کی جانے والی امداد پر انحصار کر رہے ہیں جن میں تقریبا ایک کروڑ 30 لاکھ بچے شامل ہیں۔علاوہ ازیں ایک کروڑ 90لاکھ افغان باشندوں کو شدید غذائی بحران کا سامنا ہے جبکہ ڈبلیو ایف پی کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 70 فیصد افغان آبادی غذائی اور غیر غذائی اشیا کی بنیادی ضروریات پورا کرنے سے قاصر ہے۔منصور احمد خان نے کہا کہ مشکلات کے باوجود طالبان نے مقامی وسائل کے ساتھ اپنے اخراجات پورے کئے ہیں تاہم کٹھن معاشی آزمائشوں پر قابو پانے کے لئے یہ کافی نہیں ہے ۔

سفیر نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ اور دیگر ہمسایہ ممالک افغان عبوری حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام ممالک کی کوشش ہونی چاہیے کہ افغانستان کو بین الاقوامی برادری کا ایک کارآمد رکن بنانے کے لئے اس کی مدد کریں۔ انہوں نے افغان اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔ایک سوال پر پاکستان کے سفیر نے جواب دیا کہ طالبان عبوری حکومت تحریک طالبان پاکستان جیسے گروپوں کے ساتھ بات چیت میں پاکستان کے لئے سہولت پیدا کر رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بات چیت کا عمل جاری ہے اور ہم افغان حکومت اور اس کے رہنمائوں کی طرف سے فراہم کردہ سہولت کاری پر شکر گزار ہیں۔ پاکستان کے آئین کے دائرہ کار میں رہ کر بات چیت جاری ہے اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ پارلیمنٹ کو بات چیت کے عمل کے بارے آگاہ کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان کے اندر سے کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو بھارت کی جانب سے حمایت، مالی تعاون اور تربیت فراہم کی جاتی رہی ہے۔ انہوں نے سرحدی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں بنائیں اور دہشت گرد کارروائیوں کے ساتھ افغان سر زمین کو پاکستان ، سابق قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا ۔

بھارت کے منفی کردار کے بارے سفیر نے کہا کہ بدقسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں میں بھارت نے نہایت منفی کردار ادا کیا جیسا کہ اس نے ان علاقوں میں سرمایہ کاری کی جہاں سے اس نے خفیہ دہشت گرد کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ سفیر نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ماضی میں افغانستان میں ایسی لابیاں تھیں جنہیں مخالف ممالک کی حمایت حاصل رہی جو میڈیا نیٹ ورک یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پاکستان کے تعاون اور حمایت کو منفی طور پر پیش کرتے ہوئے کام کر رہی تھیں ۔انہوں نے کہاکہ طالبان عبوری حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس عزم کا خیر مقدم کرتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت پر یقین عزم ہے۔

ایک سوال کے جواب میں منصور احمد خان نے کہا کہ پاکستان نے افغان شہریوں کو خطہ میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلہ میں زیادہ ویزے جاری کئے اور ماضی میں یہ افغان شہریوں کو یومیہ تقریبا 2000 ویزے جاری کرتا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 15 اگست کے تناظر میں جب غیر یقینی صورتحال تھی اور غیر ملکی سفارت خانے افغانستان چھوڑ رہے تھے، تو پاکستانی سفارت خانہ نے غیر ملکی شہریوں اور مقامی باشندوں کے انخلاء میں سہولت دی اور اس عرصے کے دوران بھی روزانہ1800 سے 2000 ویزے جاری کئے ۔سفیر نے کہا کہ پاکستان کا پابندیوں کا حامل ویزہ نظام نہیں۔پاکستان ویزہ حاصلِ کرنے کے خواہاں افغان سے 8.18 ڈالر پراسیسنگ فیس کے سوا کوئی ویزہ فیس وصول نہیں کرتا اور اس طرح تعلیم، صحت اور کاروباری مقاصد کے لئے پاکستان آنے والے افغان شہریوں کی مدد کر رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ فی الوقت وہ روزانہ 1500 سے زائد ویزے جاری کر رہے ہیں ۔

منصور احمد خان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان برادر ملک ہیں، پاکستان نے کم و بیش 40 لاکھ افغانیوں کی میزبانی کی ہے جوپاکستانی شہریوں کے مساوی مواقع سے مستفید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان طالب علموں کو ہر سال ایک ہزار وظائف مہیا کر رہا ہے، اس کے علاوہ پاکستان نے افغانستان میں کئی منصوبے شروع کئے اور سڑکوں، صحت اور تعلیمی انفراسٹرکچر کی ترقی پر ایک ارب ڈالر صرف کئے۔

پاکستان کی طرف سے قائم کردہ جامعات اور سٹوڈنٹس ہاسٹلز سمیت تین تعلیمی ادارے اور ہسپتال افغان شہریوں کی طبی اور تعلیمی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔سفیر نے افغانستان میں پاکستان کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 15 اگست کو طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان نے افغان عوام کی مشکلات کم کرنے کے لئے وہاں سردیوں کی آمد کے پیش نظر انسانی ہمدردی امداد فراہم کر کے اس کو بہت سہولت دی ۔

دوطرفہ تجارت کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان خطہ میں دو بنیادی اور سرکردہ تجارتی شراکت دار رہے ہیں۔13-2012 کے دوران ایک موقع پر پاک افغان دوطرفہ تجارت تین ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور اسے سالانہ 5 سے 10 ارب ڈالر حجم تک بڑھانے کے اہداف تھے۔انہوں نے کہاکہ بارڈر کراسنگ پوائنٹس پر مصنوعات اور عوام کی خوش اسلوبی سے نقل و حرکت کو یقینی بنانے کیلئے مطلوبہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جس سے دوطرفہ تجارت کے فروغ میں مدد ملے گی۔میں پر امید ہوں کہ آئندہ برسوں میں افغانستان کے ساتھ تجارت میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔

بین الاقوامی برادری کی طرف سے طالبان کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کے بارے انہوں نے رائے ظاہر کی کہ افغان عبوری حکومت امریکا ، روس اور چین سمیت بڑی طاقتوں ، بین الاقوامی برادری، علاقائی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مصروف عمل ہے ۔ اس وقت ایک عمل جاری اور افغان عبوری حکومت اور بین الاقوامی برادری اور ہمسایہ ممالک کے درمیان مسلسل روابط ہیں جب تک کہ یہ عمل ایسے مرحلے تک نہ پہنچ جائے جب متفقہ اور غالب رائے ہو کہ افغان عبوری حکومت کو تسلیم کر لیا جائے۔