اسلام آباد۔28جون (اے پی پی):افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن و استحکام سے نہ صرف پاکستان کی جیواکنامک سٹریٹیجک کو تقویت ملے گی بلکہ پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارت اور کنکٹیویٹی کا ایک نیا باب کھلے گا، افغان تنازعہ کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن واضح ہے اور وزیراعظم عمران خان نے دو ٹوک موقف دیا ہے کہ پاکستان افغانستان کے مسئلے میں کسی فریق کے ساتھ نہیں بلکہ دیرپا امن کا خواہاں ہے، دونوں ممالک کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
پیر کو نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان گزشتہ چار دہائیوں سے ایک تنازعہ کا شکار ہے اور اس تنازعہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تمام فریقین اس کے فوجی حل کے خواہاں رہے ہیں، افغان جنگ سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا اور پاکستان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی نہیں صرف سیاسی حل ہے اور تمام فریقین کو مل کر اس کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے جس میں انہیں عوام کی تائید بھی حاصل ہو۔
منصور احمد خان نے کہا کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک افغانستان میں امن اور سیاسی حل کیلئے اس کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں لیکن افغانستان کے تمام گروپوں کو بین الافغان مذاکرات کے ذریعے اس کا مل بیٹھ کر حل نکالنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلاءکی تاریخ طے ہونے کے بعد طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور سیکیورٹی کے شدید خطرات پیدا ہوتے جا رہے ہیں، سیاست میں مشکل وقت میں ہی مواقع پیدا ہوتے ہیں پاکستان اور افغانستان کے اہم رہنمائوں کے درمیان تواتر کے ساتھ اینگیجمنٹ چل رہی ہے اور ہم مثبت سفارتکاری کے ذریعے اسے مثبت سمت کی طرف لے جائیں گے۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے سینئر رہنما کوشش کر رہے ہیں کہ افغان حکومت اور طالبان کے سینئر رہنمائوں کے درمیان بات چیت کرا کے مذاکرات میں تعطل کو ختم کیا جائے تاکہ امن عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ انخلاءاپنے پروگرام کے مطابق مکمل ہو گا لیکن امریکہ معاشی اور سیکیورٹی کی مد میں افغان حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
منصور احمد خان نے کہا کہ سوویٹ یونین کے انخلاءکے بعد خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوئے تھے لگتا ہے کہ تاریخ سے سب نے سیکھا ہے اسلئے طالبان سمیت تمام فریقین سیاسی حل چاہتے ہیں، حالیہ دنوں میں طالبان کے افغانستان کے مختلف اضلاع پر قبضہ کرنے کے بعد دوبارہ خانہ جنگی کے خطرات بڑھ رہے ہیں اسلئے پاکستان سنجیدگی کے ساتھ کوشش کر رہا ہے کہ امریکی افواج کے انخلاءسے پہلے افغانستان کے مسئلے کا کوئی سیاسی حل تلاش کر لیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان تھا تاہم تحریک انصاف حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کیں، گزشتہ 10 ماہ کے دوران ڈاکٹر عبداللہ عبدالہ سمیت افغانستان کے اہم رہنمائوں کو مدعو کیا گیا، پاکستان نے دنیا کو دکھایا ہے کہ پاکستان افغان مسئلے میں فریق نہیں ہے، ہم نے بارہا افغانستان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی اور اسی سلسلے میں موجودہ حکومت نے یکطرفہ طور پر ویزہ پالیسی متعارف کرائی اور ایک دن میں سات ہزار افغانیوں کو ویزے ایشو کئے جاتے ہیں۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ افغانستان پاکستان ایکشن پلان پیس اینڈ سولیڈیریٹی سیکیورٹی پلان تشکیل دیا ہے جس میں انٹیلی جنس ادارے بھی شامل ہیں، سرحد سے غیرقانونی طور پر افغان باشندوں کے پاکستان میں داخلے کو روکنے کیلئے باڑ لگائی گئی ہے۔