اقوام متحدہ اور او آئی سی کشمیر اور فلسطین کے مسئلے سمیت اسلامو فوبیا ، انتہائی پیچیدہ نوعیت اور حل طلب طویل المدتی چیلنجز کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کریں، پاکستان

95

اقوام متحدہ۔7جنوری (اے پی پی):پاکستان نے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) پر زور دیا ہے کہ وہ دنیا کی امن و سلامتی کے لیے خطرے کا باعث کشمیر اور فلسطین کے مسئلے سمیت انتہائی پیچیدہ نوعیت اور حل طلب طویل المدتی چیلنجز کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی اور منصوبوںپر کام کریں ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندہ محمد عامر خان نے گزشتہ روز تنازعات سے متاثرہ یا خراب صورتحال والے ممالک میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنے میں درپیش چیلنجز کا جائزہ لینے سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ورچوئل اجلاس میں کہا کہ اگرچہ تنازعات سے دنیا کے کئی ممالک متاثر ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کچھ انتہائی پیچیدہ اور طویل تنازعات سے اسلامی دنیا متاثر ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ غیرملکی قبضے، مداخلت اور جارحیت کی وجہ سے مسلم دنیا کے لاکھوں لوگوں کو نہ ختم ہونے والی مشکلات کا سامنا ہے جیسا کہ کشمیر اور فلسطین کے عوام اپنے ناگزیر حق خودارادیت کے حصول اور غیر ملکی قبضے کے خاتمے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا غیرملکی مداخلت سے مسلم دنیا میں عدم استحکام میں اضافہ اور معاشی اور سماجی ترقی میں کمی آئی ہے اور یہی نہیں مسلم مخالف تعصب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک ہی رات میں اسلام کے خلاف جنگ میں بدل دیا اور اسے مسلمان ممالک پر حملہ کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا اس لیے مسلمانوں کی سرکردہ آواز کے طور پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) ان تنازعات کی اصل وجوہات کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے جو مسلم دنیا کو گھیرے ہوئے ہیں اور اسلامو فوبیا کے دوبارہ آغازسمیت مسلم دنیا کے جائز خدشات سے بین الاقوامی برادری کو آگاہ کرنے کے لئے ایک قابل اعتماد نمائندہ کے طور پر کام کرسکتی ہے۔ انہوں نے ورچوئل بحث کے آغاز میں سلامتی کونسل پر زور دیا کہ اسے اپنے بین الاقوامی امن و سلامتی کے تحفظ کے مینڈیٹ کو دیکھتے ہوئے دنیا میں تنازعات کی اصل وجوہات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موصولہ حکمت یہ ہے کہ کمزور حکمرانی ، سیاسی عدم استحکام اور ترقی پزیری اکثر ریاستوں اور معاشروں کے اندر اور ان کے درمیان تشدد کا باعث بنتے ہیں اور مفروضے پر مبنی غیریقینی صورتحال بحث کا موضوع ہے اور بدقسمتی سے یہ مفروضے صدیوں پرانی نوآبادیاتی قبضے اور استحصال ، نسل پرستی ، عدم مساوات اور لوگوں پر ظلم و ستم کے قدیم ورثہ کی طرح ایسی نازک اور غیریقینی صورتحال کی گہرائی کی جانچ کو نظرانداز کرتے ہیں ۔ اور یہ وہی میراث ہے جس نے غربت ، عدم مساوات، استحصال ،بیرونی مداخلت، ماحولیاتی تنزلی اور کمزور حکمرانی کو جنم دیا ہے جو آج اس دنیا میں تنازعات کا اصل محرک ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایک کمزور ریاست میں ساختی مسائل عدم مساوات کو براہ راست متاثر کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنی دنیا کو صحیح معنوں میں دنیا کو نوآبادی سے آزاد کرنا چاہتے ہیں اور ایسے نیو سامراجیت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان استحصالی قومی اور بین الاقوامی ڈھانچے کو ختم کرنا ہوگا ، انہوں نے مزید کہا کہ پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی)عدم مساوات ، غربت اور پسماندگی اور استحصال کے خاتمے کے لئے ایک بہترین فریم ورک اور نقشہ فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدم برداشت، تعصب ، نسل پرستی اور زینوفوبیا یعنی غیرملکیوں سے نفرت کے واقعات میں اضافہ بھی دنیاکی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں جبکہ دائیں بازو کی عوامی آبادی، تشدد ، امتیازی سلوک اور نفرت میں اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ثقافتوں اور تہذیبوں میں فرق ذاتی خواہشات اور مفادات پر اثرانداز نہیں ہونے دینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ جب تک ہر ملک محفوظ نہیں اس وقت تک کوئی محفوظ نہیں ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہی بنیادی نقطہ ہے جس پر مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس ے حقیقت کا رنگ دینے کے لیے تمام رکن ریاستوں کو سیایس طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے ۔ جبکہ کسی بھی کمزور ریاست میں ڈھانچہ جاتی مسائل اس ناانصافی کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔ مضموم طاقت اور استحصالی مفاد کا بین الاقوامی نظام اس صورتحال کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔اس کی ایک مثال ایک کھرب ڈالر کی رقوم کی غیر قانونی منتقلی کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کا استحصال ہے۔