اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کے خطاب کے کلیدی نکات : شہباز شریف نے کشمیر اور فلسطین کے تنازعات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے عالمی اور علاقائی مسائل کو اجاگر کیا، بین الاقوامی برادری کو عالمی امن کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا

78
United Nations General Assembly
Kashmir and Palestine، Muhammad Shahbaz Sharif، PMvisitUNGA، Threats to world peace، United Nations General Assembly

نیویارک۔27ستمبر (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس میں قومی ،علاقائی اور عالمی امور کا احاطہ کرتے ہوئے نہایت مدلل، پراثر اور جامع خطاب کیا ۔

جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کی حیثیت سے یہ ان کا دوسرا خطاب تھا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کشمیر اور فلسطین کے تنازعات پر توجہ مرکو زکرتے ہوئے غزہ کی المناک صورتحال، افغانستان ، یوکرین کی جنگ سمیت دیگر عالمی مسائل کو بھی اجاگر کیا۔

انہوں نے عالمی امن و سلامتی کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور عالمی امن کو درپیش خطرات سے عالمی برادری کو مؤثر انداز میں آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے دہشت گردی ، موسمیاتی تبدیلی ، اسلامو فوبیا کے عالمی مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے عالمی برادری کی اجتماعی کاوشوں کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیراعظم کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے کلیدی نکات حسب ذیل ہیں۔

٭ وزیرعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کو اعزاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے دوسری بار خطاب کر رہے ہیں جو ہمیشہ اقوام متحدہ کے خاندان کا فعال رکن رہا ہے۔

٭ وزیراعظم نے 79 ویں سیشن میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کو انتخاب پرمبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

٭ وزیراعظم نے سفیر ڈینس فرانسس کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے 78 ویں سیشن کی مہارت سے قیادت کی۔
٭ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے بانی قائدِ اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں اعلان کیا تھا کہ ’’ہم اقوام متحدہ کے منشور کے ساتھ کھڑے ہیں اور دنیا کے امن و خوشحالی کے لئے اپنی مکمل خدمات پیش کریں گے‘‘ پاکستان نے اس عزم کو ہمیشہ برقرار رکھا ہے۔

٭ وزیراعظم نے دنیا کے نظام کو درپیش بڑے چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ، یوکرین میں خطرناک تنازعہ، افریقہ اور ایشیا میں تباہ کن تنازعات، بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی کشیدگیاں، دوبارہ ابھرتی ہوئی دہشت گردی، تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت، قرضوں کی دلدل اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات چیلنج ہیں، ہمیں ایک نئی سرد جنگ کی سرد مہری محسوس ہو رہی ہے۔

ان چیلنجوں کے جواب میں، سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مستقبل کی کانفرنس کا مطالبہ کیا، اس کے نتیجے میں مستقبل کے معاہدے میں ترقی، امن و سلامتی، ٹیکنالوجی اور عالمی حکمرانی پر 54 اقدامات منظور کئے گئے۔
٭ وزیراعظم نے کہا کہ آج میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں تاکہ پاکستان کے عوام کے غزہ کے لوگوں کے مصائب پر گہرے دکھ اور تکلیف کا اظہار کروں۔ ہمارے دل لہولہان ہیں کیونکہ ہم مقدس سرزمین میں رونما ہونے والے المیے کا مشاہدہ کر رہے ہیں، ایک ایسا المیہ جو انسانیت کے ضمیر کو اور اس ادارے کی بنیاد کو ہلا دیتا ہے۔

٭ انہوں نے کہا کہ سوال کیا کہ ہم انسان ہونے کے ناطے خاموش رہ سکتے ہیں جب کہ بچے اپنے تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں؟ کیا ہم ماؤں کو اپنے بچوں کی بے جان لاشوں کو گود میں اٹھائے ہوئے نظرانداز کر سکتے ہیں؟ یہ صرف ایک تنازعہ نہیں ہے؛ یہ معصوم لوگوں کا منظم قتل عام ہے؛ انسانی زندگی اور وقار کے جوہر پر حملہ ہے۔ غزہ کے بچوں کا خون صرف ظالموں کے ہاتھوں کو داغدار نہیں کرتا بلکہ ان لوگوں کے ہاتھوں کو بھی جو اس ظالمانہ تنازعے کو طول دینے میں ملوث ہیں۔

٭ وزیراعظم نے کہا کہ جب ہم ان کے نہ ختم ہونے والے مصائب کو نظرانداز کرتے ہیں تو ہم اپنی انسانیت کو کمزور کرتے ہیں، صرف مذمت کرنا کافی نہیں ہے، ہمیں اب عمل کرنا ہوگا اور اس خونریزی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرنا ہوگا، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ فلسطینیوں کی بے گناہ قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔

٭ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں دو ریاستی حل کے ذریعے پائیدار امن کے لئے کام کرنا ہوگا، ہمیں ایک قابل عمل، محفوظ، مسلسل اور خودمختار فلسطینی ریاست کو 1967 کی سرحدوں سے پہلے کی بنیاد پر تلاش کرنا چاہئے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو اور ان اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن بھی فوری طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے!

٭ وزیراعظم نے کہا کہ چند دنوں کے اندر اسرائیل کے لبنان پر مسلسل بمباری نے 500 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا جن میں خواتین اور یہاں تک کہ چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔

٭ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد میں ناکامی نے اسرائیل کو مزید جری بنا دیا ہے، اس سے پورے مشرق وسطیٰ کو ایک ایسی جنگ میں گھسیٹنے کا خطرہ ہے جس کے نتائج سنگین اور ناقابل تصور ہو سکتے ہیں۔
٭ وزیراعظم نے کہا کہ فلسطین کے عوام کی طرح، جموں و کشمیر کے عوام بھی ایک صدی سے اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

٭ وزیراعظم نے کہا کہ امن کی طرف بڑھنے کے بجائے، بھارت جموں و کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے کے اپنے عہد سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ یہ قراردادیں جموں و کشمیر کے لوگوں کو ان کے بنیادی حق خود ارادیت کو استعمال کے قابل بنانے کے لیے رائے شماری کا حکم دیتی ہیں۔

٭ وزیراعظم نے کہا کہ 5 اگست 2019 سے بھارت نے جموں و کشمیر کے لیے اپنی قیادت کے ذریعہ بیان کردہ "حتمی حل” کے نفاذ کے لئے یکطرفہ غیر قانونی اقدامات شروع کئے ہیں۔

٭ وزیراعظم نے کہا کہ 9 لاکھ بھارتی فوجی دن رات مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو جابرانہ اقدامات کے ساتھ دہشت زدہ کر رہے ہیں جن میں طویل کرفیو، ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں کشمیری نوجوانوں کا اغوا شامل ہیں۔

٭ وزیراعظم نے کہا کہ ایک نوآبادیاتی منصوبے کے طور پر بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیری زمینوں اور املاک پر قبضہ کر رہا ہے اور وہاں باہر کے لوگوں کو بسا رہا ہے، ان کا ناپاک منصوبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔ یہ پرانا حربہ تمام قابض طاقتوں نے اپنایا لیکن یہ ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ جموں و کشمیر میں بھی یہ ناکام ہوگا۔

٭ وزیراعظم نے کہا کہ کشمیری عوام اس جھوٹے بھارتی تشخص کو مسترد کرنے میں پرعزم ہیں جو نئی دہلی ان پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ظالمانہ جبری پالیسی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ برہان وانی کی میراث لاکھوں کشمیریوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو مسلسل متاثر کرتی رہے۔ اپنی جدوجہد کی قانونی حیثیت سے متاثر ہو کر، وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کی دل دہلا دینے والی کہانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہر ایک اعداد و شمار کے پیچھے ایک انسانی زندگی ہے، ایک خواب جو تاخیر کا شکار ہے اور ایک امید جو بکھر چکی ہے۔
٭ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔ اس میں شک نہیں کہ کشمیری عوام کی آزادی کا مقصد پورا ہوگا۔

٭ وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ اور اس کے سیکرٹری جنرل، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ میں ایک کلیدی کردار ادا کریں گے تاکہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو ان کے حق خودارادیت کا موقع فراہم کیا جا سکے۔
٭ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات نے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک مسئلہ کشمیر کا پُرامن حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تلاش نہیں کیا جاتا۔

٭ وزیراعظم نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے کیونکہ بھارت اپنی جارحانہ اور غاصبانہ پالیسیوں کے ذریعے پورے خطے کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ عالمی برادری بھارت کو اس کی جارحیت سے باز رکھے۔
٭ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کو صرف بڑے طاقتور ممالک کی حکمرانی کے طور پر نہیں چلایا جا سکتا۔ ہمیں انصاف اور برابری کے اصولوں پر مبنی ایک عالمی نظام کی ضرورت ہے۔ طاقت کے بے دریغ استعمال سے زیادہ تباہ کن کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔ دنیا کے تمام خطوں میں جغرافیائی اور سیاسی مسائل کو مذاکرات اور امن کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے، نہ کہ جنگ کے ذریعے۔
٭ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان عالمی امن و استحکام کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کرتا رہے گا۔ ہم اقوام متحدہ کے امن مشن کا ایک کلیدی حصہ ہیں اور ہم ہمیشہ تنازعات کے پُرامن حل کے لیے کوشاں رہیں گے۔

٭ وزیراعظم نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت چکائی ہے اور ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

٭ وزیراعظم نے کہا کہ آخر میں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان اقوام متحدہ کے تمام فورمز پر امن، ترقی، اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے پرعزم رہے گا، وزیراعظم نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے پابند ہیں اور ہم ان اصولوں کی بنیاد پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔